Wednesday, 20 February 2013

بنگلہ دیش : دینی جماعتوں پر پابندی کے مضمرات

| |
بھارت نواز عوامی لیگ جب سے بنگلہ دیش میں دوبارہ برسر اقتدار آئی ہے اس نے اسلام،پاکستان اور مسلمان کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی دینی و مذہبی جماعتیں بالخصوص جماعت اسلامی اس کی خصوصی نوازشات کا شکار ہے۔پاکستان کو دو لخت کرنے اور لاکھوں ہم وطنوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والی عوامی لیگ تمام اخلاقی و قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت نوازی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔اس ضمن میں۲۹ جون کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیرمطیع الرحمن نظامی(جن کی عمر70سال ہے)جنرل سیکرٹری علی احسن مجاہد اور عالم دین مولانا دلاور حسین سعیدی کو گرفتار کر لیا گیا۔اگلے ہی روز عدالت نے ان کی ضمانت منظور کرلی تو کچھ اور مقدمات میں دوبارہ گرفتاری ڈال دی گئی اور جماعت اسلامی،BNPاور شبر کے ہزاروں کارکنوں کی گرفتاریاں شروع کر دیں گئیں۔انسانی حقوق کے کارکنان کے پر امن احتجاج اور اخبار نویسوں کورپورٹنگ کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے ان کیلئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوگیا۔اخبارات اور ٹی وی چینلز بند کئے گئے،سید مودودیؒ کی کتب پر پابندی عائد کر کے مدارس،مساجد،لائبریریوں سے ان کو ہٹانے کا حکم صادر کیاگیا ہے۔یہ اور اس طرح کتنے ہی دین بیزار اقدامات کئے جارہے ہیں۔ 
بنگلہ دیش میں مذہبی جماعتوں پر پابندی لگا کر سپریم کورٹ آف بنگلہ دیش نے جو رائے دی ہے اس کے بعد سیاسی حالات تیزی سے بدلنا شروع ہوئے۔بنگلہ دیش کی بڑی دینی جماعت،جماعت اسلامی پہلے سے مید ان میں سرگرم ہے کیونکہ جماعت کی صف اول کی قیادت کو گرفتار کیا گیااور انکے خلاف جنگی ملزم ہونے کا الزام لگا کر مقدمات قائم کر دیئے گئے ہیں۔اس کے خلاف جماعت کی طرف سے بنگلہ دیش بھر میں ہر روز کسی نہ کسی صورت میں احتجاج ہوا۔ان پابندیوں کے بعد دینی اور مذہبی جماعتیں کھل کر میدان میں آگئی ہیں۔گذشتہ ہفتہ کے روز ڈھاکہ پریس کلب میں اسلامی متحدہ محاذ کے رہنما مولانا فضل الحق امینی نے حکومت کو انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کے خلاف آج تک جس نے بھی کوئی اقدام کیا وہ تباہ وبرباد ہوا ۔موجودہ حکومت اسی تباہی کے راستے پر چل رہی ہے ہم حکومت کو متنبہہ کرتے کہ ہیں ان اسلام دشمن اقدامات کے نتیجہ میں خودحکومت کو ہی نقصان پہنچے گا دینی جماعتوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل ہائی کورٹ کے دو ججز نے’’ فتویٰ‘‘ پر پابندی لگا کر ایک رائے دی تھی جس پردینی جماعتوں نے ان کے خلاف مرتد ہونے کا اعلان کیا تھا۔جس کے نتیجہ میں معاشرے میں ان کے ساتھ جوسلوک ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کا انکار کرنے والوں کو نرم سے نرم الفاظ میں کافر ہی کہا جائے گا۔
اسی موقع پر بنگلہ دیش نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدر شفیع العالم پرودھن نے کہا حکومت کی طرف سے بار بار اعلان کیا جاتا ہے کہ1972ء کے دستور کا احیاء کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم1972ء کے دستورکو نہیں مانتے کیونکہ یہ ایک غیر جمہوری دستور ہے جس کو شیخ مجیب الرحمان نے پوری قوم پر مسلط کیا تھا۔انہوں نے کہایہ ہندوستان سے لایا جانے والا ریڈی میڈ دستور ہے۔
مذہبی جماعتوں کی اس دھمکی کے بعد حکومت اور حکومتی سطح پر کافی پریشانی پائی جاتی ہے،کیونکہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کو بھارت نوازسمجھا جاتا ہے اور یہ ہمیشہ ہندوستان کے مفاد میں سرگرم عمل رہی ہے۔عوام کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ اسلام کے خلاف کئے جانے والے یہ اقدامات دراصل ہندوستان کی ڈکٹیشن پر ہی ہو رہے ہیں۔15اگست1975ء میں موجودہ وزیر اعظم کے والد شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کو بنگلہ دیش آرمی کے ایک انقلاب میں ختم کر دیا گیا۔جبکہ شیخ حسینہ اوران کی بہن شیخ ریحانہ اس وقت بنگلہ دیش میں موجود نہ تھیں ،جس کے باعث وہ زندہ بچ گئیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہ انقلابی گروہ حریت پسندوں کاوہ گروہ تھا جس نے1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام میں اہم اورکلیدی رول ادا کیا تھا۔مجیب حکومت کے خاتمے کے بعد دنیا بھر میں یہ سوال پیدا ہوا کہ مجیب جیسے معروف رہنما کا یہ حشر کیوں ہوا؟اس زمانے میں اس کا جواب دیتے ہوئے لندن سنڈے ٹائمز کے ایک مضمون میں انتھونی مسکارنہس نے لکھا تھا کہ بنگلہ دیش میں مجیب کی شہرت و مقبولیت کا گراف اتنی تیزی سے نیچے آیا کہ اس کی شہرت صفر ہو کر رہ گئی۔بنگلہ عوام کو ایسا لگا کہ شیخ مجیب بھارت کے کہنے پر اسلام کے خلاف سرگرم عمل ہے اوراسلام کو مٹانے کیلئے تگ ودو کر رہا ہے۔مجیب کے زوال کے سب سے بڑی اور اہم وجہ یہی ہے۔ بنگلہ دیش میں اب حسینہ شیخ کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ وہ اس راستے پر مت چلیں جس پر چل کر آپ کے والد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔حقیقت یہی ہے کہ شیخ حسینہ اسی راستے پر گامزن ہیں جو انحطاط کی طرف جاتا ہے اور اس میں انکے نادان مشیروں کا بڑا عمل دخل ہے۔
اسلام کی بنیاد پر بننے والی جماعتوں پر کون پابندی لگائے گا؟اس پر حکومتی سطح پر بڑا سوال پیدا ہوگیاہے۔31جولائی کو بنگلہ دیش کے وزیر قانون نے ایک انگریزی اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی و دینی جماعتوں پر پابندی کا کام الیکشن کمیشن کا تھا۔اس پرالیکشن کمیشن نے فوراً رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے دائرہ کار میں ہی نہیں آتاکہ ہم کسی سیاسی و مذہبی جماعت پرپابندی لگائیں‘‘اس سے ایسے لگتا ہے کہ کوئی بھی مذہبی جماعتوں پر پابندی لگانے کی ذمہ داری لینے کیلئے تیار نہیں ہے۔بنگلہ دیش کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی(BNP) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس گذشتہ دنوں ڈھاکہ میں منعقد ہواجس میں پارٹی کی چیئر پرسن بیگم خالدہ ضیاء(جوتین مرتبہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہ چکی ہیں)نے اپنی تقریر میں کہا کہ موجودہ حکومت پڑوسی ملک کے اشارے پر چل کر بنگلہ دیش کو تباہ و برباد کر رہی ہے(ان کا واضح اشارہ بھارت کی طرف تھا)۔یہ وقت ہے کہ اگر اس حکومت کو ہٹایا نہیں گیا تو یہ ملک کی آزادی و خود مختاری کو ختم کر دے گی۔انہوں نے کہا کہ عوام مید ان میں آنے کیلئے تیار ہیں اور ہماری کال کی منتظر ہے۔ہم اس کیلئے تیار ہیں اور اپنے وطن کو عوامی لیگ کے ہاتھوں تباہ نہیں ہونے دیں گے۔اس سے قبل مختلف اضلاع کے رہنماؤں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اس حکومت نے جماعت اسلامی کے خلاف جو قدم اٹھا یا وہ انتہائی افسوس ناک ہے،جھوٹے اور من گھڑت الزامات کو ثابت کرنے کیلئے ٹریبونل بنایا گیاہے۔ہمیں چاہئے کہ اس کے خلاف ایک مضبوط قدم اٹھائیں ،اگرآج جماعت اسلامی پر پابندی لگتی ہے توکل یہاں پر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
کچھ روز پہلے بیگم خالدہ ضیاء نے کہا تھا کہ ہم جنگی ملزمان کے ٹرائیل(War Criminals Trial)کے خلاف نہیں مگر جماعت پر لگائے جانے والے تمام تر الزامات سیاسی انتقام کے مترادف ہیں۔انہوں نے کہا کہ خود عوامی لیگ میںs War Criminalموجود ہیں ان کے خلاف کیوں کاروائی نہیں کی جاتی؟بیگم خالدہ ضیاء کا یہ اشارہ شاید خود حسینہ شیخ کی اکلوتی بیٹی کے سسرالی خاندان کی طرف تھا کیونکہ جس گھرانے میں ان کی اکلوتی بیٹی کی شادی ہوئی ہے وہ مسلم لیگ کا معروف خاندان ہے اور1971ء میں پاکستان کی حمایت کی جدوجہد میں پیش پیش رہاہے۔اس لحاظ سے وہ خاندان بھیWar Criminalsکے زمرے میں آتا ہے۔اسی طرح شیخ حسینہ کے سمدھی اور انکی بیٹی کے سسرانجنئیر مشرف حسین اس وقت بنگلہ دیش کے افرادی قوت کے وزیر ہیں اور ان کے خلاف بھی1971ء کے جنگی ملزم ہونے کا الزام ہے اور یہ الزامات دوسروں پر لگا کر جب ان کو دیوار سے لگا دیا جائے گا تو اس کا نتیجہ سب کو معلوم ہے کہ اس الزام سے وہ خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے اس سے اضطراب اور بے چینی بڑھے گی۔ملک میں افراتفری بڑھے گی جو نہ ملک کیلئے نیک شگون ہوگا اور نہ خود عوامی لیگ کیلئے ہاں البتہ ا س سے بھارت اور امریکہ کو ضرور فائدہ ہوگا۔