Tuesday, 19 February 2013

پکاردو کہ اٹھی ہے شہید کی میت --- زمانہ پیچھے چلے اور سر جھکا کے چلے

| |
( شہید عامر چیمہ کے سفر آخرت کا آنکھوں دیکھا حال )
عامر عبد الرحمن چیمہ ، خوبصور ت جسم و جان اور جذبات کا مالک ایک جوان رعنا ، اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا اور بہنوں کا راج دلارا، پورے خاندان ہی نہیں پوری امت کے جذبات کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دینے والا درخشندہ ستارا، اسلامی جمعیت طلبہ کا عزت وافتخار کہ اس تنظیم کا وہ رفیق رہا۔ شاندار تعلیمی ریکارڈ اور دینی جذبات کا حامل یہ نوجوان ناموس مصطفےٰ پر قربان ہوگیا اور دنیا میں یہ پیغام دے گیا کہ ناموس مصطفےٰ کی جانب جو ہاتھ اٹھے گا نہیں رہے گا، جو آنکھ اٹھے گی پھوڑ دی جائے گی اور جو قدم بڑھے گا وہ قدم مٹ جائے گا۔ عاشقان مصطفےٰ کا یہی پیغام ہے۔ 
13 مئی کو عصر حاضر کے غازی علم الدین شہید کی میت لاہور ایئر پورٹ پر پہنچی۔ اہل خانہ کی خواہش تھی کہ میت اسلام آباد آتی،راولپنڈی میں جنازہ ہوتا جہاں شہید نے زندگی کے ابتدائی ایام گزارے مگر حکومت کی مصلحتیں اور عوام کے جذبات ہم آہنگ نہ ہوپائے،کہ حکومت امریکہ کی کاسہ لیس اور عوام امریکہ سے بیزار اور نفرت کرنے والے ۔میت کیسے اسلام آباد آتی اور جنازہ راولپنڈی میں کیسے ہوتا کہ خوف خدا سے عاری وقت کے ناخدا خائف تھے کہ اگر میت سڑک پر آئی اور عوامی جذبات بھڑک اٹھے تو جانے کیا ہوجائے۔بس اسی سوچ وفکر میں غلطاں حکمرانوں نے منصوبہ بنایا کہ میت کو لاہور ایئر پورٹ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر راھوالی کینٹ لایا جائے اور وہاں سے بذریعہ ایمبولینس ساروکی چیمہ پہنچادیا جائے۔
حکمران اتنے خوفزدہ تھے کہ کوئی حکومتی شخصیت جنازہ میں شریک نہ ہوئی۔ جنازہ کا اہتما م عوام خود کررہے تھے، ایک بڑے قطعہ اراضی کو صاف کرکے نماز جنازہ کے لیے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت انتظام کیا۔ ساروکی چیمہ کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا، پھولوں کی لڑیاں جابجا لگی ہوئی تھیں، جگہ جگہ پانی کی سبیلیں لگائی گئی تھیں۔ لوگوں کا جم غفیر تھا، جو شہید کے ساتھ محبت و عقیدت کے اظہارکے لیے امڈ آیا تھا ۔وزیر آباد سے آنے والی سڑک پر گاڑیوں کی قطار تھی جو تھمنے میں نہ آتی تھی۔سائیکلوں ، موٹر سائیکلوں ، گاڑیوں اور بسوں کے ذریعے عاشقان رسول جوق در جوق جنازہ میں شرکت کے لیے ساروکی پہنچ رہے تھے۔ ساروکی، کی ہر گلی اور بازار، کھیت کھلیان اور درخت حتیٰ کہ جدھر نظر جاتی انسانوں کا انبوہ عظیم نظر آتا تھا۔
موسم کی شدت اور حدت اپنی جگہ موجود تھی مگر یہاں تو معاملہ ایک عاشق رسول ؐ کے استقبال کا تھا ،کوئی پیچھے رہنے کو تیار نہیں تھا۔ بچے نہ بوڑھے خواتین نہ نو جوان۔ ایک جگہ دھوپ میں تین عمر رسیدہ بزرگ بیٹھے تھے میں نے پوچھا کس طرح آئے ہیں؟ انکی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔پھر کہنے لگے یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ ؟اسی طرح سٹیج پر ایک صاحب کو خطاب کے لیے کہا گیا تو ان صاحب کا جواب تھا یہ ساری تقریریں وہی ہیں جو ہورہی ہیں اور آبدیدہ ہوگئے اور کتنوں کو آبدیدہ کردیا۔
جونہی شہید کی میت لے کر ایمبولنس نمودار ہوئی عوام نے فلک شگاف نعروں سے استقبال کیا۔ ہزاروں من پھول کی پتیاں ایمبولینس پر نچھاور کی گئیں۔ اہل ساروکی، اپنے عظیم فرزند کا استقبال کررہے تھے۔ جس نے دنیا میں ساروکی کو بھی عظیم تر مقام عطا کیا۔ شہید کا تابوت سب سے پہلے خواتین والے پنڈال کی جانب لے جایا گیا۔ جہاں شہید کی والدہ نے درود و سلام کے ساتھ اپنے لخت جگر کا استقبال کیا۔ ہزاروں خواتین نے شہید کے تابوت کو بوسہ دیا۔ شہید کی والدہ نے کہا کہ میرے بیٹے نے یورپ پر پہلا پتھر مارا ہے۔ سب مسلمانوں کو اس کی تقلید کرنی چاہیے۔ شہید کی والدہ کا عزم و حوصلہ قابل دید تھا۔انہوں نے کہا کہ حرمت رسول پر ہم سب کی جانیں قربان ہوجائیں تو بھی آخرت کی کامیابی کے یے بہت کم ہے۔ شہید کی دادی نے تابوت کو بوسہ دیتے ہوئے کہا عامر سچا عاشق رسول تھا اﷲ اسکی شہادت قبول فرمائے۔ شہید کے والد پر وفیسر نذیر چیمہ عزم و حوصلے کا پہاڑ معلوم ہوتے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ حکومت نے ہماری خواہش کے خلاف زبردستی عامر چیمہ شہید کی تدفین آبائی گاؤں ساروکی میں کروائی ہے۔ میرے بیٹے کی وصیت کے مطابق تدفین جنت البقیع یا کسی ولی اﷲ کے پہلو میں کرنا تھی۔ گاؤں میں کرفیو کا سماں پیدا کیا گیا اور جنازہ میں آنے والے قافلوں کو روکا گیا۔ حکومت نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک عام آدمی ہوں جس کا اکلوتا بیٹا شہید ہوا ۔ میں حکومت کا مقابلہ کیسے کرسکتاتھا۔ میرے اوپر بہت دباؤ تھا۔ 
شہید کے لواحقین کو پولیس کی نگرانی میں دو فلائنگ کوچز میں بھر کر پنڈی سے انکے آبائی گاؤں ساروکی لایا گیا اور اس طرح عامر شہید کی نماز جنازہ زبردستی ساروکی چیمہ کی گئی جبکہ اہل خاندان کی خواہش تھی کہ جنازہ پہلے راولپنڈی میں ہو، بعد میں تدفین ساروکی چیمہ ہوجائے مگر حکومت نے زبردستی کرکے شہید کے خاندان کے ساتھ زیادتی کی۔ شہید کا تابوت جونہی پنڈال میں پہنچا اور اسے ایمبولینس سے نکالا گیا لوگ تابوت کو کندھا دینے اور چھونے کے لیے والہانہ وار آگے بڑھے۔ عجیب سماں اور کیفیت تھی۔ شہید کا تابوت تھا اور لوگوں کا والہانہ پن اور جوش و خروش ۔ا س موقع پر مرحوم نعیم صدیقی یاد آئے 
ادب سے اس نعش کو اتارو
رسن کا حلقہ ادب سے کھولو
دبے دبے پاؤں، ہولے ہولے، سبک سبک طرز سے چلویاں
ادب سے لو سانس دھیما دھیما، بلند آواز میں نہ بولو
تمام دیوار ودر سجاؤ! تمام ماحول کو سنوارو!
درود پڑھ کر ، سلام کہہ کر ، یہاں پہ نذر و فا گزارو
ادب سے اس نعش کو اتارو
یہ نعش زندہ شہید کی ہے
شہید ! جس نے اذیتوں مئے تمنا کشید کی ہے
شہید ! جس نے بدن کے بدلے حیات دائم خرید کی ہے
یہ پاک میت ہے ایک سورج ! ضیاء یہ صبح امید کی ہے
شہید کی نعش کے ادب میں تما م تاریخ رک گئی ہے
زماں کی گردش ٹھہر گئی ہے
ہیں علم و فن دست بستہ حاضر 
شہید کی نعش کے ادب میں تمام تہذیب جھک گئی ہے
وہ روح سقراط آرہی ہے جلومیں شاگرد اپنے لے کر 
ادھر یہ دیکھو حسینؓ بسمل !
یہ ابن جنبلؒ ،امام مالکؒ ،ادھر جناب ابو حنیفہؒ 
کسی کے ہاتھوں میں تیغ براں! کوئی لئے خامہ و صحیفہ!
سدا بہار اپنے زخم لے کر پروکے زخموں کے ہار لائے 
میری نگاہیں یہ دیکھتی ہیں
فلک سے قدسی اتر رہے ہیں!!
کتنے سچے شعر ،کتنی سچی حقیقت اور کتنے عمدہ خیالات و جذبات کتنے خوبصورت انداز میں ترتیب پائے ہیں ۔ دل کے تاروں کو چھیڑتے ہی نہیں جذبات کو بھی مہمیز کرتے ہیں۔ تابوت تک پہنچنے کی کشمکش میں کتنے ہی لوگ موسم کی شدت کی تاب نہ لاکر بے ہوش بھی ہوگئے مگر کیا مجال کہ تابوت کو بوسہ دینے اور چھونے والوں کے جوش و جذبہ میں کمی آئی ہو۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔شہید کے والد گرامی نے خود اپنے لخت جگر کی نماز جنازہ پڑھائی ۔ تدفین کے وقت فضاکلمہ شہادت سے گونج اٹھی اور شرکاء کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہے اور خواتین مکانات کی چھتوں پر چڑھ کر بآواز بلند کلمہ طیبہ پڑھتی رہیں۔ یہ ایک سچے عاشق رسول کا جنازہ تھا جس میں بلاشبہ لاکھوں افراد نے والہانہ جذبے اور دینی جذبے کے ساتھ شرکت کی۔ 
میں دیکھ رہا تھا کہ شہید کی میت اٹھی تو زمانہ پیچھے پیچھے سرجھکا ئے چلا آرہا ہے۔ شہید کا استقبال ہورہا تھا اور آسمان پر گویا جشن کا سماں ہے اور خود حضور ؐ شہید کا استقبال کررہے ہیں۔ کیسی خوش قسمتی ہے جو اس نوجوان کا مقدر بنی ہے ہر کوئی رشک کررہا تھا کہ کاش یہ موقع مجھے ملتا۔