اﷲ رب العزت نے ہر انسان کی فطر تمیں یہ داعیہ رکھا ہے کہ زندگی کی رنگینیوں اور جھمیلوں سے سبکدوش ہو کر کچھ دیر کے لیے مسرت و شادمانی سے شاد کام ہو۔حضرت علی فرماتے ہیں کہ جسم کی طرح دل کو بھی تکان لاحق ہوتی ہے لہٰذا تکان کو ہلکا کرنے کے لیے عجائب حکمت بیان کرو۔ مزید فرمایا دلوں کو وقفہ وقفہ سے آرام دو کہ دل کی ناخوشگواری اس کو اندھا بنادیتی ہے۔ اور ابو داؤدؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے نفس کو کسی قدر باطل سے دل لگی کرنے دیتا ہوں تاکہ اسے حق پر چلنے میں مدد ملے مذاہب عالم کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہر قوم نے سال میں اپنے لیے کچھ دن مقرر کرلیے ہیں ، جن میں وہ تفریح حاصل کرتی ہے اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتی ہے ۔ اہل فارس نے سال میں ایسے دو تہوار مقرر کر رکھے تھے ، جن میں ایک کو ’’ نوروز‘‘ اور دوسرے کو ’’ مہر جان‘‘ کہا جاتا ۔ دور جاہلیت میں اہل عرب نے اپنے یہاں تہوار منانے کے لیے فارس سے دونوں تہوار درآمد کرلیے جن میں عیش و عشرت کی وہ ساری رنگینیاں اور لہو ولعب موجود تھیں، جنہیں اہل فارس نے اختیار کررکھا تھا۔
ہجرت کے بعد نبی مہربانﷺ مدینہ تشریف لائے اور ۲ ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض کردیے گئے تو انصار نے حسب معمول کوئی تہوار منانا چاہا۔ حضرت انسؓ راوی ہیں کہ مدینہ تشریف آوری کے بعد نبی ﷺ نے انصار مدینہ کو دیکھا کہ وہ فارس سے درآمد کردہ دونوں تہوار منانے کی زور و شور سے تیاری کررہے ہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کے یہ دونوں دن کونسے ہیں؟ انصار نے جواب دیا کہ عہد جاہلیت میں ان دونوں تہواروں میں کھیل کود کیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: دور جاہلیت کے سارے غلط معاملات جہاں ختم کردیے گئے ہیں وہاں یہ دونوں تہوار بھی ختم کیے جارہے ہیں۔ ان دونوں تہواروں کے بجائے اﷲ تعالیٰ نے تمہیں دو بہترین تہوار عنایت فرمائے ہیں، جن میں ایک عید الفطر اور دوسر عید الاضحی ہے۔
اقوام کے تہواروں کی یا تو کوئی صحیح بنیاد ہی نہیں اور اگر کوئی بنیاد ہے تو وہ بھی کسی غلط مفروضے پر قائم ہے، جس کی کوئی اصل نہیں، کسی نہ کسی کی ولادت کے دن کو تہوار قرار دے لیا گیا، جیسے عیسائیوں کا تہوار ’’ کرسمس‘‘ ۔ غیر مسلموں کے یہاں جس طرح ان کے خداؤں کی تعداد بے شمار ہے۔ اسی طرح ان کے تہواروں کا بھی شمار نہیں۔ ان تہواروں میں خیر و فلاح کا کوئی پہلو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ البتہ ہر تہوار میں کھیل کود، راگ رنگ، شراب و کباب، رقص و سرود اور فحاشی، عریانی پائی جاتی ہے۔ اہل اسلام سال بھر میں دو عیدیں مناتے ہیں جن میں کوئی عید بھی کسی شخصیت یا کسی مفروضے پر قائم نہیں ہے۔ بلکہ ہرعید کا تعلق بنیادی اور اصولی طور پر عبادت کے ساتھ مربوط ہے۔ ایک عید، نزول قرآن اور رمضان کی یاد گار ہے اور دوسری ایثار و قربانی، سرفروشی و جان نثاری کی یاد گار کے طور پر منائی جاتی ہے۔ دونوں عیدوں کا آغاز، تعلق با ﷲ اور بندگی رب سے ہوتا ہے۔ رمضان میں روزہ، تراویح، تلاوت، اعتکاف اور زکوۃ کے ذریعہ حقوق اﷲ اور حقوق العبادکی ادائیگی کے بعد عید الفطر اس امر کی ضمانت ہے کہ اﷲ کے بندوں کو یقین و ایمان کی تازگی کے ساتھ قرب الہٰی نصیب ہوتا ہے۔
زندگی میں صرف مسرت و شادمانی کے لمحات آتے ہیں یا صرف عبادات کے مواقع ملتے ہیں لیکن عیدین کا معاملہ دوسرا ہے کہ ہر عید میں عبادت و مسرت ، لذت کام و دہن کے ساتھ روحانی بالیدگی اور قوت و طاقت بھی میسر ہوجاتی ہے۔ تعلق با ﷲ میں زیادہ اہمیت عبدیت اور اطاعت امر کو حاصل ہے۔ ہر نماز اپنے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ بے شک نماز اہل ایمان پر وقت کی پابندی کے ساتھ لازم قرار دی گئی ہے۔
لیکن حج کے موقع پر حجا ج کرام عرفات میں ٹھہرتے ہیں تو انہیں حکم ہے کہ مغرب کے وقت عرفات میں موجود رہنے کے باوجود نماز مغرب نہ پڑھیں بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء دونوں ملا کر پڑھیں ۔ اسی طرح عید الفطر کے موقع پر حکم ہے صدقہ فطر ادا کرنے کے بعد ناشتہ کرکے نماز عید پڑھی جائے اور عید اضحی کے موقع پر بغیر کچھ کھائے نماز عید کے لیے روانگی عمل میں آئے اور نماز عید کے بعد قربانی کا جانور ذبح کیا جائے۔ نماز عید سے قبل کوئی نفل نماز پڑھنا جائز نہیں۔
’’ عیدین ‘‘ میں اگر صرف لذت جسمانی اور لطف اور مسرت اور خوشی شادمانی کا معاملہ ہوتا اور اس کے ساتھ جذأہ ایمانی اور نشاط روحانی کو شامل نہ کیا گیا ہوتا تو اس صورت میں عیدین کی نوعیت بس ایک تہوار جیسی ہی ہوتی، جس کے ذریعہ محض مادی تقاضے پورے کیے جاتے اور دونوں عیدوں کے درمیان وقفہ بھی مختصر ہونے کے بجائے طویل ہوتا۔ عیدین میں بنیادی اہمیت چونکہ عبادت اور فکر آخرت کو حاصل ہے ۔ اس لیے ہر عید کو ایک عظیم الشان اور ناقابل فراموش یاد گار کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور اس کا لحاظ نہیں رکھا گیا کہ عیدین کے درمیانی وقفے کو دراز کردیا جائے۔ عیدین کے احکام میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
۱۔ نماز عید دو ہی رکعت پڑھی جائے۔
۲۔ خطب�ۂ نماز عید کے بعد دیا جاتا ہے۔
۳۔ نماز عید شہر سے باہر عید گاہ میں پڑھی جاتی ہے ہاں اگر بارش ہوجانے کا خطرہ ہو یا کوئی شدید مجبوری پیش آجائے تو اس صورت میں مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے۔
۴۔ عیدگاہ میں نماز عید سے قبل ا ور بعد کوئی نفل نماز نہیں پڑھی جائے گی۔
۵۔ نماز عید کی پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ اور ثناء کے بعد اور قرأت سے قبل تین سے زائد تکبیرات اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد تین تکبیرات کہی جائیں گی۔
۶۔ شہر سے عید گاہ جاتے ہوئے سبھی لوگ اونچی آواز میں تکبیرات کہتے جائیں گے۔
۷۔ جس راستے عیدگاہ جائیں گے واپس آتے ہوئے اس راستے کے بجائے دوسرا راستہ اختیار کریں، جس کی ایک مصلحت تو یہ ہے کہ راستے تکبیرات کی صدائے دل نوازسے گونجیں اور اس امر کے گواہ بن جائیں کہ اﷲ کے بندے مسرت و شادمانی کے مواقع پر متانت و سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اسلامی شان وشوکت کا کھلم کھلا مظاہرہ ہو۔
۸۔ نماز عید کے لیے مردوں کے علاوہ خواتین بھی عید گاہ جائیں ۔ نماز عید میں شریک ہوں۔ خطبہ عیدسنیں۔ اسی طرح اسلام میں اجتماعیت کی جو اہمیت ہے اس کا بھی اظہار ہوجائے۔
’’عیدین‘‘ میں مذکورہ بالا مشترک امور کے علاوہ جو امتیازی امور ہیں وہ اگر چہ کم ہیں مگر وہ بھی بجائے خود قابل لحاظ ہیں اور وہ یہ ہیں۔
۱۔ عید الفطر میں نماز عید سے قبل فقراء و مساکین کو صدقۂ فطر ادا کیا جائے جس کے دو طرفہ فوائد ہیں۔ روزہ دار حضرات کے لیے یہ فائدہ کہ رمضان بھر کے روزوں اور دوسری عبادات میں کوئی نقص رہ گیا تو اس کی تلافی ہوجائے گی اور فقراء و مساکین کے لیے یہ فائدہ کہ عید کے موقع پر آسانی کے ساتھ اپنی ضروریات عید کا سازو سامان فراہم کرسکیں گے۔
۲۔ نماز عید سے قبل سب لوگ کچھ نہ کچھ کھاپی کر عید گاہ جائیں۔
۳۔ طلوع آفتاب کے بعد نسبتاً کچھ دیر بعد نماز عید ادا کی جائے گی۔
۴۔ عید الاضحیٰ کی نماز طلوع آفتاب کے بعد نسبتاً جلدی پڑھ لی جائے گی۔
۵۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر نماز عیدسے قبل کچھ کھائے پئے بغیر عید گاہ جائیں گے۔ نماز اور خطبہ سے فارغ ہوکر واپس آنے کے بعد جانور کی قربانی کریں اور قربانی کے گوشت سے کھانے کے ابتداء کریں جو کہ مسنون طریقہ ہے، کسی مجبوری کے باعث قربانی نہیں کررہے ہیں تو جو بھی میسر ہوگا وہ کھائیں گے۔
۶۔ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد عید الاضحیٰ کی نماز سے فارغ ہونے تک سر کے بال کٹوائے جائیں اور نہ ناخن تراشے جائیں ۔ نماز عید سے فارغ ہونے کے بعد جو لوگ قربانی کریں گے ان کو قربانی کے اجر و ثواب کے ساتھ اپنے بال اور ناخن تراشنے کا ثواب بھی ملے گا اور جو لوگ عدم استطاعت کے باعث قربانی نہیں کرسکتے ، ان کو بھی بال اور ناخن نکالنے کی وجہ سے بہر حال کچھ نہ کچھ ثواب مل ہی جائے گا۔
ایام حج میں جو خوش نصیب زائرین حرم ارکان حج ادا کررہے ہوتے ہیں ، ان کے لیے بطور خاص یہ پابندی ہے کہ وہ ۱۰ ذی الحجہ کو قربانی کرنے کے بعد ہی اپنے بال اور ناخن نکال سکتے ہیں۔ لہٰذا جو حضرات حج کے لیے نہیں جاسکے ہیں، ان کو زائرین حرم کے ساتھ اس معاملے میں ایک طرح کی مناسبت پیدا ہوجاتی ہے ،اس لیے انہیں اجرو ثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔ ’’ عیدین‘‘ کی ادائیگی کاپورا حق اسی وقت ادا ہوسکتا ہے جب کہ عیدین کے مطلوبہ تقاضے بدر جہ اتم پورے کیے جائیں۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ عید اس کی نہیں جو صرف نئے کپڑے پہن کر عید کے لیے چلاجائے بلکہ حقیقی عید اس کی ہے جو زندگی بھر اﷲ کی بندگی کرتا رہے اور اﷲ کے عذاب سے ڈرتا رہے۔ عید اس کی نہیں جو بڑی شان کے ساتھ سواریوں پر بیٹھ کر عیدگاہ پہنچ جائے بلکہ حقیقی عید اس کی ہے جو گناہوں کو چھوڑ دے۔
بد قسمتی سے اس وقت ہمارے اعمال محض رسمی بن گئے ہیں اور یقین و ایمان کی تازگی اور روح باقی نہیں رہی۔ آج اسلام ہر جگہ اجنبی اور مظلوم ہے حالانکہ اسے ادیان باطلہ پر غالب ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے عیدین بھی رسمی بن کر رہ گئی ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کے دوران عیدین کو جو عظمت حاصل تھی، وہ اب مفقود ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے۔
عید آزاداں شکوہ ملک و دیں
ہجرت کے بعد نبی مہربانﷺ مدینہ تشریف لائے اور ۲ ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض کردیے گئے تو انصار نے حسب معمول کوئی تہوار منانا چاہا۔ حضرت انسؓ راوی ہیں کہ مدینہ تشریف آوری کے بعد نبی ﷺ نے انصار مدینہ کو دیکھا کہ وہ فارس سے درآمد کردہ دونوں تہوار منانے کی زور و شور سے تیاری کررہے ہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کے یہ دونوں دن کونسے ہیں؟ انصار نے جواب دیا کہ عہد جاہلیت میں ان دونوں تہواروں میں کھیل کود کیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: دور جاہلیت کے سارے غلط معاملات جہاں ختم کردیے گئے ہیں وہاں یہ دونوں تہوار بھی ختم کیے جارہے ہیں۔ ان دونوں تہواروں کے بجائے اﷲ تعالیٰ نے تمہیں دو بہترین تہوار عنایت فرمائے ہیں، جن میں ایک عید الفطر اور دوسر عید الاضحی ہے۔
اقوام کے تہواروں کی یا تو کوئی صحیح بنیاد ہی نہیں اور اگر کوئی بنیاد ہے تو وہ بھی کسی غلط مفروضے پر قائم ہے، جس کی کوئی اصل نہیں، کسی نہ کسی کی ولادت کے دن کو تہوار قرار دے لیا گیا، جیسے عیسائیوں کا تہوار ’’ کرسمس‘‘ ۔ غیر مسلموں کے یہاں جس طرح ان کے خداؤں کی تعداد بے شمار ہے۔ اسی طرح ان کے تہواروں کا بھی شمار نہیں۔ ان تہواروں میں خیر و فلاح کا کوئی پہلو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ البتہ ہر تہوار میں کھیل کود، راگ رنگ، شراب و کباب، رقص و سرود اور فحاشی، عریانی پائی جاتی ہے۔ اہل اسلام سال بھر میں دو عیدیں مناتے ہیں جن میں کوئی عید بھی کسی شخصیت یا کسی مفروضے پر قائم نہیں ہے۔ بلکہ ہرعید کا تعلق بنیادی اور اصولی طور پر عبادت کے ساتھ مربوط ہے۔ ایک عید، نزول قرآن اور رمضان کی یاد گار ہے اور دوسری ایثار و قربانی، سرفروشی و جان نثاری کی یاد گار کے طور پر منائی جاتی ہے۔ دونوں عیدوں کا آغاز، تعلق با ﷲ اور بندگی رب سے ہوتا ہے۔ رمضان میں روزہ، تراویح، تلاوت، اعتکاف اور زکوۃ کے ذریعہ حقوق اﷲ اور حقوق العبادکی ادائیگی کے بعد عید الفطر اس امر کی ضمانت ہے کہ اﷲ کے بندوں کو یقین و ایمان کی تازگی کے ساتھ قرب الہٰی نصیب ہوتا ہے۔
زندگی میں صرف مسرت و شادمانی کے لمحات آتے ہیں یا صرف عبادات کے مواقع ملتے ہیں لیکن عیدین کا معاملہ دوسرا ہے کہ ہر عید میں عبادت و مسرت ، لذت کام و دہن کے ساتھ روحانی بالیدگی اور قوت و طاقت بھی میسر ہوجاتی ہے۔ تعلق با ﷲ میں زیادہ اہمیت عبدیت اور اطاعت امر کو حاصل ہے۔ ہر نماز اپنے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ بے شک نماز اہل ایمان پر وقت کی پابندی کے ساتھ لازم قرار دی گئی ہے۔
لیکن حج کے موقع پر حجا ج کرام عرفات میں ٹھہرتے ہیں تو انہیں حکم ہے کہ مغرب کے وقت عرفات میں موجود رہنے کے باوجود نماز مغرب نہ پڑھیں بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء دونوں ملا کر پڑھیں ۔ اسی طرح عید الفطر کے موقع پر حکم ہے صدقہ فطر ادا کرنے کے بعد ناشتہ کرکے نماز عید پڑھی جائے اور عید اضحی کے موقع پر بغیر کچھ کھائے نماز عید کے لیے روانگی عمل میں آئے اور نماز عید کے بعد قربانی کا جانور ذبح کیا جائے۔ نماز عید سے قبل کوئی نفل نماز پڑھنا جائز نہیں۔
’’ عیدین ‘‘ میں اگر صرف لذت جسمانی اور لطف اور مسرت اور خوشی شادمانی کا معاملہ ہوتا اور اس کے ساتھ جذأہ ایمانی اور نشاط روحانی کو شامل نہ کیا گیا ہوتا تو اس صورت میں عیدین کی نوعیت بس ایک تہوار جیسی ہی ہوتی، جس کے ذریعہ محض مادی تقاضے پورے کیے جاتے اور دونوں عیدوں کے درمیان وقفہ بھی مختصر ہونے کے بجائے طویل ہوتا۔ عیدین میں بنیادی اہمیت چونکہ عبادت اور فکر آخرت کو حاصل ہے ۔ اس لیے ہر عید کو ایک عظیم الشان اور ناقابل فراموش یاد گار کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور اس کا لحاظ نہیں رکھا گیا کہ عیدین کے درمیانی وقفے کو دراز کردیا جائے۔ عیدین کے احکام میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
۱۔ نماز عید دو ہی رکعت پڑھی جائے۔
۲۔ خطب�ۂ نماز عید کے بعد دیا جاتا ہے۔
۳۔ نماز عید شہر سے باہر عید گاہ میں پڑھی جاتی ہے ہاں اگر بارش ہوجانے کا خطرہ ہو یا کوئی شدید مجبوری پیش آجائے تو اس صورت میں مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے۔
۴۔ عیدگاہ میں نماز عید سے قبل ا ور بعد کوئی نفل نماز نہیں پڑھی جائے گی۔
۵۔ نماز عید کی پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ اور ثناء کے بعد اور قرأت سے قبل تین سے زائد تکبیرات اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد تین تکبیرات کہی جائیں گی۔
۶۔ شہر سے عید گاہ جاتے ہوئے سبھی لوگ اونچی آواز میں تکبیرات کہتے جائیں گے۔
۷۔ جس راستے عیدگاہ جائیں گے واپس آتے ہوئے اس راستے کے بجائے دوسرا راستہ اختیار کریں، جس کی ایک مصلحت تو یہ ہے کہ راستے تکبیرات کی صدائے دل نوازسے گونجیں اور اس امر کے گواہ بن جائیں کہ اﷲ کے بندے مسرت و شادمانی کے مواقع پر متانت و سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اسلامی شان وشوکت کا کھلم کھلا مظاہرہ ہو۔
۸۔ نماز عید کے لیے مردوں کے علاوہ خواتین بھی عید گاہ جائیں ۔ نماز عید میں شریک ہوں۔ خطبہ عیدسنیں۔ اسی طرح اسلام میں اجتماعیت کی جو اہمیت ہے اس کا بھی اظہار ہوجائے۔
’’عیدین‘‘ میں مذکورہ بالا مشترک امور کے علاوہ جو امتیازی امور ہیں وہ اگر چہ کم ہیں مگر وہ بھی بجائے خود قابل لحاظ ہیں اور وہ یہ ہیں۔
۱۔ عید الفطر میں نماز عید سے قبل فقراء و مساکین کو صدقۂ فطر ادا کیا جائے جس کے دو طرفہ فوائد ہیں۔ روزہ دار حضرات کے لیے یہ فائدہ کہ رمضان بھر کے روزوں اور دوسری عبادات میں کوئی نقص رہ گیا تو اس کی تلافی ہوجائے گی اور فقراء و مساکین کے لیے یہ فائدہ کہ عید کے موقع پر آسانی کے ساتھ اپنی ضروریات عید کا سازو سامان فراہم کرسکیں گے۔
۲۔ نماز عید سے قبل سب لوگ کچھ نہ کچھ کھاپی کر عید گاہ جائیں۔
۳۔ طلوع آفتاب کے بعد نسبتاً کچھ دیر بعد نماز عید ادا کی جائے گی۔
۴۔ عید الاضحیٰ کی نماز طلوع آفتاب کے بعد نسبتاً جلدی پڑھ لی جائے گی۔
۵۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر نماز عیدسے قبل کچھ کھائے پئے بغیر عید گاہ جائیں گے۔ نماز اور خطبہ سے فارغ ہوکر واپس آنے کے بعد جانور کی قربانی کریں اور قربانی کے گوشت سے کھانے کے ابتداء کریں جو کہ مسنون طریقہ ہے، کسی مجبوری کے باعث قربانی نہیں کررہے ہیں تو جو بھی میسر ہوگا وہ کھائیں گے۔
۶۔ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد عید الاضحیٰ کی نماز سے فارغ ہونے تک سر کے بال کٹوائے جائیں اور نہ ناخن تراشے جائیں ۔ نماز عید سے فارغ ہونے کے بعد جو لوگ قربانی کریں گے ان کو قربانی کے اجر و ثواب کے ساتھ اپنے بال اور ناخن تراشنے کا ثواب بھی ملے گا اور جو لوگ عدم استطاعت کے باعث قربانی نہیں کرسکتے ، ان کو بھی بال اور ناخن نکالنے کی وجہ سے بہر حال کچھ نہ کچھ ثواب مل ہی جائے گا۔
ایام حج میں جو خوش نصیب زائرین حرم ارکان حج ادا کررہے ہوتے ہیں ، ان کے لیے بطور خاص یہ پابندی ہے کہ وہ ۱۰ ذی الحجہ کو قربانی کرنے کے بعد ہی اپنے بال اور ناخن نکال سکتے ہیں۔ لہٰذا جو حضرات حج کے لیے نہیں جاسکے ہیں، ان کو زائرین حرم کے ساتھ اس معاملے میں ایک طرح کی مناسبت پیدا ہوجاتی ہے ،اس لیے انہیں اجرو ثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔ ’’ عیدین‘‘ کی ادائیگی کاپورا حق اسی وقت ادا ہوسکتا ہے جب کہ عیدین کے مطلوبہ تقاضے بدر جہ اتم پورے کیے جائیں۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ عید اس کی نہیں جو صرف نئے کپڑے پہن کر عید کے لیے چلاجائے بلکہ حقیقی عید اس کی ہے جو زندگی بھر اﷲ کی بندگی کرتا رہے اور اﷲ کے عذاب سے ڈرتا رہے۔ عید اس کی نہیں جو بڑی شان کے ساتھ سواریوں پر بیٹھ کر عیدگاہ پہنچ جائے بلکہ حقیقی عید اس کی ہے جو گناہوں کو چھوڑ دے۔
بد قسمتی سے اس وقت ہمارے اعمال محض رسمی بن گئے ہیں اور یقین و ایمان کی تازگی اور روح باقی نہیں رہی۔ آج اسلام ہر جگہ اجنبی اور مظلوم ہے حالانکہ اسے ادیان باطلہ پر غالب ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے عیدین بھی رسمی بن کر رہ گئی ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کے دوران عیدین کو جو عظمت حاصل تھی، وہ اب مفقود ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے۔
عید آزاداں شکوہ ملک و دیں
عید محکوماں ہجوم مومنیں
آزاد اور حریت کش اور محکوم و مجبور مسلمانوں کی عید میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے آزاد مسلمان کی عید میں دین و حکومت کی شان و شوکت ہوتی ہے۔ جبکہ غلاموں کی عید کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کا ہجوم کچھ دیر کے لیے ایک جگہ جمع ہوگیاہو۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ شان وشوکت اور عظمت رفتہ کی بحالی کی جدوجہد میں دامے درمے قدمے سخنے اپنا کردار ادا کیا جائے تاکہ امت متحدہ ومنظم بھی ہو اور قیادت و سعادت کے منصب جلیلہ پر دوبارہ فائز ہوسکے۔