قاضی حسین احمد ’ملاؤں‘ (علمائے کرام ) کے درمیان ایک معتدل شخصیت تھے۔ ان کی وفات سے پاکستان کے دائیں بازو کو سخت نقصان ہوا ہے۔نومبر 2007میں جنرل پرویز مشرف نے جب دوسری مرتبہ ملک میں ہنگامی حالت مسلط کی اور سیاست دانوں، وکلا اور ججوں کو پس دیوار زنداں دھکیلا تو عمران خان نے جامعہ پنجاب میں طمطراق سے گرفتاری دینے کا فیصلہ کیا۔یونیورسٹی جماعت اسلامی کے سٹوڈنٹ ونگ ’’ اسلامی جمعیت طلبہ‘‘ کا گڑھ تھی مگر میزبان نا مہربان ثابت ہوئے۔بجائے گرفتاری میں رکاوٹ ڈالنے کے انہوں نے سابق کرکٹ ہیرو کو بالوں سے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے پولیس وین میں ڈالا ۔ قاضی حسین احمدطلبہ کے رویے سے مایوس ہوئے ۔ انہوں نے عمران خان سے بد سلوکی کی مذمت کی اور جمعیت سے فاصلہ بڑھانے کے رحجان کا آغاز کیا جو اس کے بعد مضبوط تر ہوگیا۔ وہ ایک قدم آگے بڑھے اور جماعت کے اندرونی حلقے کے افراد کے ساتھ عمران خان کے گھر تشریف لے گئے۔ اور ان پر یہ واضح کیا کہ جو ہوا وہ نادانستگی میں ہوا۔ ایک ماہ بعد جب ان کے والد فوت ہوئے تو زماں پارک لاہور میں نماز جنازہ کی امامت قاضی حسین احمد نے کی۔ منصب امارت سے فراغت کے بعد تحریک انصاف کے ساتھ ان کا بہت قریبی تعلق رہا۔
قاضی حسین احمد 6،جنوری2013کو دل کے دورے سے انتقال فر ماگئے۔ ان کی عمر 74برس تھی۔ وہ دو مرتبہ جراحت قلب کے مراحل سے گذرے۔ وہ 1987سے 2008تک چار میقات جماعت اسلامی کی قیادت پر فائز رہے۔ اس دوران انہوں نے جماعت اسلامی کو شدت پسندی اور انتہا پسندی کے راستے سے ہٹا کر اعتدال کی راہ پر ڈالا اور اس کے لیے ان کی جدوجہد آخر دم تک جاری رہی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو القاعدہ سے دور کیا اور ان غیر ریاستی عناصر سے بھی جنہیں بعد میں دنیا نے دہشت گرد قرار دیا۔
19 نومبر2012 کو تحریک طالبان پاکستان (کالعدم) کے سربراہ حکیم اﷲ محسود نے ایک جنگجو عمر آفریدی کے تعاون سے قاضی حسین احمد پر ایک خاتون خود کش بمبار کے ذریعے قاتلانہ حملہ کرایا۔ یہ گذشتہ اپریل کے ان کے ریمارکس کا بدلہ تھا کہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کے خلاف طالبان کا لڑنا تو حقیقی جہاد ہے لیکن پاکستان میں پاکستانی طالبان کی لڑائی غیر اسلامی ہے ۔ اس پر حکیم اﷲ محسود نے ایک وڈیو پیغام میں کہا کہ’’ قاضی حسین احمد جہاد کے غدار ہیں اور جمہوریت کی حمایت کرکے یہودی لابی کے حامی بن گئے ہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب پڑھے لکھے لوگ طلبہ اور علما آپ کا بے حد احترام کرتے تھے لیکن میں آپ پر مزید اعتماد نہیں کرسکتا۔ کیا میں آپ سے سوال کرسکتا ہوں کہ ہمارے جہاد کو آ پ غیر اسلامی کیوں قرارد یتے ہیں؟ ‘‘
قاضی حسین احمد کی اعتدال پسندی نے جماعت اسلامی کو بھی سیاسی حالات سے مطابقت کرتے ہوئے1980سے1990کے عشرے میں جمہوری شناخت دی۔ ان کی شخصیت نے جہادی نظریات کی حامل پارٹی کو جمہوریت پر یقین رکھنے والی پارٹی میں تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جماعت کے موجودہ امیر سید منور حسن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی کو دوبارہ انقلابی نظریات کی حامل پارٹی بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ جو دراصل طالبان کی نقوش پا پر چلنے کے مترادف ہے۔ جماعت اسلامی کو ایک اور اعتدال پسند رہنما کی ضرورت ہے۔
قاضی حسین احمد 1938میں نوشہرہ کے قریبی گاؤں زیارت کاکا صاحب خیبر پختونخواہ میں پیدا ہوئے۔ وہ دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ جمعیت علمائے ہند کے رہنما حسین احمد مدنی کے نام پر ان کا نام رکھا گیا مگر اس کو انہوں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حسین احمد مدنی کا پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کے ساتھ قیام پاکستان کے پس منظر اور نوعیت بارے مباحثہ بھی ہوا ۔ قاصی حسین احمد اپنی تقریر و تحریر میں اقبال کے اردو اور فارسی اشعار بطور حوالہ استعمال کرتے رہے۔
قاضی حسین احمد دینی پس منظر رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ سرحد میں کانگریس کے گہرے اثرات کے باوجود وہ اپنے آپ کو سیکولر اور لبرل نہ بناسکے۔ اس طرح وہ روایتی عالم دین بھی نہ بنے۔ جماعت کا امیر بننے کے بعد وہ اس حوالے سے اپنی رائے دینے میں کبھی نہیں ہچکچائے ،ہمیشہ جرأت کے ساتھ اظہارکرتے، وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی جماعت کے طلبہ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ میں بھی فعال رہے اور پھر وہ امیر جماعت بن گئے۔
وہ دینی تعلیم کے حصول کے لیے مدرسے بھی نہیں گئے ، انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے ایم ایس سی جغرافیہ کیا اور اپنے خاندانی کاروبار کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ اس دوران وہ بطور لیکچرار تدریس کے ساتھ وابستہ رہے ، 1970میں جماعت میں شمولیت اختیا ر کی۔ صوبے میں تیزی سے جماعت کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے وہ 1978میں جماعت کے مرکزی سیکرٹری جنرل ( قیم جماعت ) کے منصب پر فائز ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا اور جماعت اسلامی امریکہ اور سعودی عرب کے تعاون سے چھیڑی جانے والی جنگ کے اہم مہرے کے طور پر سامنے آئی۔ اس زمانے میں پختون ہونا بہت اہمیت کا حامل تھا۔ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے ایک مثالی رہنما تھے اور سٹوڈنٹ ونگ میں ہر دلعزیز۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا امکانی طور پر انہیں جماعت کے منصب امارت تک پہنچانے میں ہاتھ تھا۔ تاکہ وہ لاہور کو مرکز بنا کر کام کرنے والی جماعت کو چلائیں کیونکہ ان سے پہلے پنجابی امیر(میاں طفیل محمد ) سیاسی طورپر ذہین و فطین ہونے کی شہرت نہ رکھتے تھے۔ قاضی حسین احمد نے جب 1987میں امارت کا منصب سنبھالا تو افغان جہاد خاتمے کے قریب تھا جبکہ مقبوضہ کشمیر میں جہادی سرگرمیوں کی صف بندی ہورہی تھی۔
کرشماتی شخصیت کے مالک قاضی حسین احمد کی شناسائی افغان رہنماؤں سے اس دور میں ہوئی جب وہ پشاور میں وقت گزاررہے تھے ا ور پاک فوج کی قیادت میں سرخ روسی فوجوں سے نبردآزما تھے۔انہوں نے حزب اسلامی کے رہنما ، گلبدین حکمت یار کے ساتھ اپنے روابط کو مضبوط کیا اور انہیں طاقتور بنایا ۔اس لیے کہ ISIنے فنڈز اور ہتھیاروں کی فراہمی میں ہمیشہ اس افغان رہنما کو ترجیح دی۔
بیش تر لوگوں کا خیال ہے کہ حکمت یار کے ساتھ قاضی حسین احمد کی دوستی کا سبب نقطہ نظر کی ہم آہنگی تھی۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس دوستی کی بنیادی وجہ وہ احترام تھا جو حکمت یا رقاضی صاحب کے لیے رکھتے تھے۔ بد قسمتی سے اول الذکر کی بہت زیادہ شکی اور ضدی طبیعت نے معاملات کو پہلے کی طرح نہ رہنے دیا۔
قاضی حسین احمد نے مجاہدین سے لڑنے پر کبھی ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی ،اس لیے کہ وہ پختون اور شمالی اتحاد کے اختلاف کو پسند نہ کرتے تھے۔ جب فتح قریب تھی، ایک پاکستانی صحافی 2001میں قاضی حسین احمد کے ساتھ ایران گیا ۔یہاں حکمت یار اور قاضی حسین احمد کی ملاقات ہوئی۔حکمت یار نے ایران سے پناہ طلب کی تھی۔ دوران ملاقات قاضی حسین احمد نے شکوہ کیا کہ حکمت یار نے شمالی اتحاد کے رہنما احمد شاہ مسعود کے ساتھ رابطہ نہیں کیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مجاہدین آپس میں لڑیں۔ دوسری جانب حکمت یار نے اختلاف کرتے ہوئے قاضی صاحب کے احترام کے ساتھ اپنے نقطۂ نظر کا دفاع کیا۔
اپنی وفات سے چند روز قبل انہوں نے پاکستانی فوج کو مشورہ دیا کہ افغانستان کے معاملات میں دخل دینے سے گریز کرے اور انہیں خود اپنے مسائل حل کرنے دے ۔ افغانستان میں بھارت کی موجودگی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ افغانستان کبھی بھارت کی ڈکٹیشن پر چلنے والا نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جنوبی افغانستان کے پشتونوں کا شمال کے غیرپختونوں کے ساتھ دوستانہ تعلق نہایت ضروری ہے۔
قاضی حسین احمدکی نرمی ایک تدریجی عمل تھا۔ یہ جماعت اسلامی کے لیے بھی اچھا تھا کیونکہ افغانستان اور بھارت میں جہاد پر اہلحدیث اور دیوبندی مکتب فکر کی اجارہ داری تھی لیکن قاضی صاحب کا اولین دور ایک انقلابی مرحلہ تھا ۔1990میں انہوں نے اپنی توجہات کو داخل کی طرف مرکوز کیا۔
قاضی حسین احمد نے پاسبان بنا کر سماجی انصاف اور مساوات کا علم بلند کیا اور پاکستانی معاشرہ کو انقلاب آشنا کرنے کی جدوجہد کا ڈول ڈالا۔تاکہ پاکستانی معاشرے میں انقلاب کے لیے ،عدل اجتماعی اور مساوات اُن کی نوجوانوں کی تنظیم پاسبان کے ذریعے نافذ ہوں۔
اس کا نعرہ یہ تھاکہ ’’ اگرہم دولت کی منصفانہ تقسیم نہ کرسکے تو بھوک اور غربت مزید بڑھے اور پھیلے گی۔‘‘ قاضی حسین احمد پُرجوش جلوسوں کے آگے آگے ’’ ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘کا نعرہ لگاتے ہوئے آجاتے۔ حکومت پر دباؤ ڈالنے اور متوسط طبقے کواپنی متبادل قیادت کی طرف لانے کے لیے انہوں نے ’دھرنوں‘‘ کا راستہ اختیار کیا۔ جس کے ذریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے پر کشش پاسبان کو چلانے میں انہوں نے اپنی زندگی کے چند سبق سیکھے۔ جب ان پر یہ انکشاف ہوا کہ پاسبان میں خفیہ اداروں کے لوگ شامل ہوگئے ہیں۔ 1994میں پاسبان کے پر تشدد احتجاج سے تنگ آکر انہوں نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ صرف پاسبان کو ان کے سیاسی کیریئر پر داغ قرار دیا جاسکتا ہے۔انہوں نے شباب ملی قائم کی جسے انہوں نے مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا ۔ لیکن جوش و جذبے سے معمور اور متحرک نوجوانوں کا ساتھ نہ حاصل ہوسکا۔ پاسبان نے جو شعلہ فروزاں کیا تھا وہ غائب ہوگیا ،جماعت کو متحرک کرنے میں پاسبان نے اپنا کردار ادا کیا۔
قاضی حسین احمد ایک متقی، نیک، خوش اطوار انسان تھے اور ایک مبلغ بھی۔ وہ جماعت کے اسلامی کے بانی مودودی کے افکار و نظریات کے وفادار رہے۔ اخوان المسلمون کے ساتھ بھی ان کے مسلسل روابط بحال رہے ۔ حسن البناء کی کتب جماعت کے اداروں سے شائع ہوتی رہیں۔وہ اخوان کے رہنما سید قطب کے نظریات کو بھی اسلامی ریاست کے قیام کے سلسلے میں غیر معمولی اہمیت دیتے ۔ جماعت اسلامی جہاد کے بارے میں اس طر ح سرگرم نہ رہی جس طرح پہلے تھی تو لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیمیں سامنے آئیں اور سرگرم ہوگئیں۔القاعدہ آج بھی سید قطب کے اپنا استاد ہونے پر فخر کرتی ہے۔
بہت سے دوسرے طریقوں سے بھی قاضی صاحب نے مودودی کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے اپنے آپ کومذہبی جماعتوں کی شیعہ سنی تقسیم سے دور رکھا اور اپنی بہترین کوششیں اس پر صرف کیں کہ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران میں بڑھتی ہوئی فرقہ ورانہ منافرت سے بچایا جائے۔ایک مرتبہ جب شدت پسند جوشیلے نوجوان مال روڈ لاہور پر ایران کے کلچرل سنٹر کو تباہ کررہے تھے ۔ انہوں نے مظاہرین کو معقول بات سکھانے کے لیے اچانک پہنچ کر سب کو حیرت زدہ کردیا۔
وسیع تجربے اور لوگوں کے بدلتے ہوئے رویوں نے انہیں بہت کچھ سوچنے سمجھنے کی طرف مائل کیا۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان نے اپنی کتاب "Pakistan and Afghanistan:conflict, Extremism and resistance to modernity"
میں 2011میں لکھا ہے کہ1992کے نام نہاد پشاور معاہدے کے ضمن میں جب قاضی حسین احمد نے 20۔ اپریل کی سہ پہر کو دو رہنماؤں حکمت یار اور احمد شاہ مسعود سے بات کی اور انہیں وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں شرکت پر رضامند کرنا چاہا لیکن کئی گھنٹے ان کے ساتھ گذارنے کے بعد جب انہوں نے بات نہ مانی اس پر انہوں نے بہت تکلیف محسوس کی۔ ایک وقت تھا کہ جب یہ( افغان رہنما) ان سے تعاون کی درخواستیں کیا کرتے تھے ۔
جماعت اسلامی کی ویب سائٹ بتاتی ہے کہ قاضی حسین احمد تحریک اسلامی سوڈان کے قائد حسن ترابی اور مرد آہن عمر حسن البشیر کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں کامیاب رہے۔ اس طرح وہ کشمیر ی مجاہدین کے درمیان بھی اختلاف ختم کرنے کے لیے کوشاں رہے۔
2002کے قومی انتخابات جماعت کی زندگی میں بہت مشکل تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کو دستور پاکستان میں ترامیم کا اختیار دیا تھا۔ دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی مدد سے انہیں صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اکثریت حاصل ہوئی۔ قاضی حسین احمد اس دوران ایم ایم اے کے صدر بن گئے۔ اس میں تمام بڑی مذہبی جماعتوں بشمول شیعہ امید کے ساتھ شامل ہوگئے۔
مجلس عمل کاتجربہ قاضی حسین احمد کے لیے کوئی بہت اچھا تجربہ ثابت نہ ہوا۔ اس طرح طالبان کی ابھرتی ہوئی طاقت نے بھی جماعت اسلامی کے اثرو رسوخ اور پوزیشن کو کمزور کیا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کو سنبھالنا اور کنٹرول کرنا بھی ایک مشکل کام رہا۔ ایم ایم اے کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد صوفی محمد نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے ذریعے سوات میں جمہوریت اور آئین پاکستان کو غیر اسلامی قرار دیا اور قاضی حسین احمد اور دیگر اعتدال پسندوں کو رد کردیا۔ اسی طرح اس زمانہ میں ’’ حسبہ بل ‘‘ لایا گیا جس کے ذریعے طالبان کے زمانے کے افغانستان کی طرح اخلاقی پولیس قائم کرنے کی طرف پیش رفت ہوئی۔ ایم ایم اے کے بعد قاضی حسین احمد نے ملی یکجہتی کونسل کے ذریعے حالات کو بہتر بنانے اور سدھارنے کی کوشش کی۔ قاضی حسین احمد کی معتدل شخصیت اور اعتدال پسندانہ آواز نہ سننے کے باعث فرقہ واریت کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ بلوچستان کے 6لاکھ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے افرادمیں سے 8ہزار پر تشدد واقعات میں مارے گئے۔
قاضی حسین احمد سے جو ایک مرتبہ مل لیتا ، ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ ہوجاتا، وہ بے خوف اور دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ لوگوں کو ڈرانے دھمکانے سے زیادہ معاملات کو بہتر بنانے اور اخروی نجات کی طرف متوجہ کرتے ۔ وہ اعتدال پسند اور میانہ رو تھے۔ مخالفین کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ لچکدار ہوتا ۔ وہ مشکل وقت میں اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی دوستوں والا معاملہ کرتے۔سیاسی طور پر متضاد نقطہ نظر رکھنے والے دائرے میں بھی ان کی کوششیں اثر انگیز ثابت ہوتی تھیں۔
پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ قاضی حسین احمد کبھی کبھی جماعت کے نظریات اور اصولوں کے خلاف بھی چلے جاتے اور یہ چیز جماعت اسلامی کے کارکنان کو محسوس ہوتی۔ بطور امیر جماعت انہوں نے جماعت کو قومی سطح کی پارٹی بنایا لیکن وہ اسے نمایاں طور پر وسعت دینے ناکام رہے۔ ( ان کی کاوشوں کے سبب جماعت کے ممبران کی تعداد 45لاکھ تک پہنچ گئی) وہ نہ جھکنے والے اور نہ بکنے والے ، کھلے ذہن کے رہنما تھے۔ ان سے چاہے کوئی مذہبی آدمی ملتا یا سیکولر اور لبرل وہ اسے پوری توجہ دیتے ۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے حوالے سے وہ بہت پر امید رہتے اور کامیابیوں سے خوش ہوتے۔ پاکستان جیسے ملک کو قاضی حسین احمد جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے۔
احمد رشید ماہر طالبان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی دنیا کی اہم اور معروف تنظیم اخوان المسلمون جیسے نظریات و خیال رکھنے کی حامل جماعت ہے۔ جماعت بنیادی انسانی حقوق ، حقوق نسواں، جمہوریت اور جدید خیال رکھتی ہے ۔ جماعت رد عمل کی سیاست کرتی ہے۔ وہ الزام دیتے ہیں کہ جماعت اشرافیہ کی جماعت بنادی گئی ہے۔ موجودہ دور میں دنیا بھر کی لیڈر شپ کا موازنہ کریں تو وہ جدید نظر آتی ہے مگر اخوان المسلمون اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے ساتھ موازنہ کریں تو ایسے لگتا ہے کہ یہ وہ کچھ نہیں کرسکے جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔
موجودہ جماعتی قیادت شاید کسی حد تک جماعت کے نظریات کو موجودہ دور سے ہم آہنگ کرسکی ہے لیکن بڑے پیمانے پر نوجوان نسل کو جدید اسلامی نظریات سے ہم آہنگ نہیں کیا جاسکاہے۔
قاصی حسین احمد نے جماعت اسلامی پر اپنے گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک طویل عرصہ وہ اپنی جماعت میں کبھی چیلنج نہیں کیے جاسکے۔ انہوں نے مشکلات سے گذر کر اپنی سیاست کو نیا آہنگ دیا۔ وہ مجاہدین اور دینی جماعتوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں کو ناپسند کرتے۔ وہ محسوس کرتے کہ ایم ایم اے کے دور حکومت میں صوبہ خیبر پختونخواہ کو اسلامی نظام کی برکات و حسنات سے مکمل طور پرفیض یاب نہیں کیاجاسکا۔
قاضی حسین احمد سینیٹر اور ممبر قومی اسمبلی رہے اور وہ بہت سوں کے لئے سائبان کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ دنیا کو اپنا بنالینے اور اسے مسخر کرنے کی صلاحیت سے مالامال تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستانی طالبان نے انہیں اپنا نشانہ بنایا۔ لیکن طالبان کے ساتھ براہ راست کشمکش کی بجائے ان کا کہنا تھا کہ یہ در اصل برائی کے محور امریکہ ، انڈیا اور اسرائیل کی کارروائی تھی۔
یہ بات غلط ہے کہ جو کسی کی جانب سے کہی جاتی ہے کہ قاضی حسین احمد کے ایک عظیم کردار کو بہر حال نظر انداز کیا گیا۔ جدید خیالات کا حامل ہونے کے باوجود انہوں نے پاکستانی ٹی وی چینلوں پر چلنے والے فحش اور مخرب اخلاق پروگرامات کو قانون کے تحت چیلنج کیا۔ وہ عام لوگوں اور اپنے حریفوں کو مصیبت میں دیکھ کر خوش نہ ہوسکتے۔ یہ حیران کن بات تھی کہ جب قوم محسوس کرتی کہ کسی مسئلہ پر سب کا اتفاق رائے موجود ہے مگر وہ اس سے متفق نہ ہوتے۔ لیکن دائیں بازو کے لکھنے والے ان کی بزرگی کی وجہ سے ان سے اختلاف نہ کرتے ۔
ٹی وی اینکر اور لبرل خیالات کے حامل جریدے فرائیڈے ٹائمز کے پبلشر نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ جب میں نواز شریف کے دور حکومت میں سیف الرحمن ( احتساب بیورو) کے زیر عتاب تھا۔ اور فرائیڈے ٹائمز کے چھاپنے پر پابندی تھی ، یہ قاضی حسین احمد ہی تھے جو میرے کام آئے اور مجھے تحفظ دیا اور میگزین جماعت اسلامی کے چھاپہ خانے میں شائع ہوا۔ ان کے اس عمل کو میں کبھی نہیں بھلا سکتا ۔
:نوٹ
کے ۲۵ جنوری ۲۰۱۳ کے شمارے میں News Week Pakistan کے عنوان سے "Saint Qazi"یہ
شائع ہونے والی خالد احمد اور عدنان صدیقی کی تحریرکاترجمہ ہے
قاضی حسین احمد 6،جنوری2013کو دل کے دورے سے انتقال فر ماگئے۔ ان کی عمر 74برس تھی۔ وہ دو مرتبہ جراحت قلب کے مراحل سے گذرے۔ وہ 1987سے 2008تک چار میقات جماعت اسلامی کی قیادت پر فائز رہے۔ اس دوران انہوں نے جماعت اسلامی کو شدت پسندی اور انتہا پسندی کے راستے سے ہٹا کر اعتدال کی راہ پر ڈالا اور اس کے لیے ان کی جدوجہد آخر دم تک جاری رہی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو القاعدہ سے دور کیا اور ان غیر ریاستی عناصر سے بھی جنہیں بعد میں دنیا نے دہشت گرد قرار دیا۔
19 نومبر2012 کو تحریک طالبان پاکستان (کالعدم) کے سربراہ حکیم اﷲ محسود نے ایک جنگجو عمر آفریدی کے تعاون سے قاضی حسین احمد پر ایک خاتون خود کش بمبار کے ذریعے قاتلانہ حملہ کرایا۔ یہ گذشتہ اپریل کے ان کے ریمارکس کا بدلہ تھا کہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کے خلاف طالبان کا لڑنا تو حقیقی جہاد ہے لیکن پاکستان میں پاکستانی طالبان کی لڑائی غیر اسلامی ہے ۔ اس پر حکیم اﷲ محسود نے ایک وڈیو پیغام میں کہا کہ’’ قاضی حسین احمد جہاد کے غدار ہیں اور جمہوریت کی حمایت کرکے یہودی لابی کے حامی بن گئے ہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب پڑھے لکھے لوگ طلبہ اور علما آپ کا بے حد احترام کرتے تھے لیکن میں آپ پر مزید اعتماد نہیں کرسکتا۔ کیا میں آپ سے سوال کرسکتا ہوں کہ ہمارے جہاد کو آ پ غیر اسلامی کیوں قرارد یتے ہیں؟ ‘‘
قاضی حسین احمد کی اعتدال پسندی نے جماعت اسلامی کو بھی سیاسی حالات سے مطابقت کرتے ہوئے1980سے1990کے عشرے میں جمہوری شناخت دی۔ ان کی شخصیت نے جہادی نظریات کی حامل پارٹی کو جمہوریت پر یقین رکھنے والی پارٹی میں تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جماعت کے موجودہ امیر سید منور حسن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی کو دوبارہ انقلابی نظریات کی حامل پارٹی بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ جو دراصل طالبان کی نقوش پا پر چلنے کے مترادف ہے۔ جماعت اسلامی کو ایک اور اعتدال پسند رہنما کی ضرورت ہے۔
قاضی حسین احمد 1938میں نوشہرہ کے قریبی گاؤں زیارت کاکا صاحب خیبر پختونخواہ میں پیدا ہوئے۔ وہ دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ جمعیت علمائے ہند کے رہنما حسین احمد مدنی کے نام پر ان کا نام رکھا گیا مگر اس کو انہوں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حسین احمد مدنی کا پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کے ساتھ قیام پاکستان کے پس منظر اور نوعیت بارے مباحثہ بھی ہوا ۔ قاصی حسین احمد اپنی تقریر و تحریر میں اقبال کے اردو اور فارسی اشعار بطور حوالہ استعمال کرتے رہے۔
قاضی حسین احمد دینی پس منظر رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ سرحد میں کانگریس کے گہرے اثرات کے باوجود وہ اپنے آپ کو سیکولر اور لبرل نہ بناسکے۔ اس طرح وہ روایتی عالم دین بھی نہ بنے۔ جماعت کا امیر بننے کے بعد وہ اس حوالے سے اپنی رائے دینے میں کبھی نہیں ہچکچائے ،ہمیشہ جرأت کے ساتھ اظہارکرتے، وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی جماعت کے طلبہ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ میں بھی فعال رہے اور پھر وہ امیر جماعت بن گئے۔
وہ دینی تعلیم کے حصول کے لیے مدرسے بھی نہیں گئے ، انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے ایم ایس سی جغرافیہ کیا اور اپنے خاندانی کاروبار کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ اس دوران وہ بطور لیکچرار تدریس کے ساتھ وابستہ رہے ، 1970میں جماعت میں شمولیت اختیا ر کی۔ صوبے میں تیزی سے جماعت کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے وہ 1978میں جماعت کے مرکزی سیکرٹری جنرل ( قیم جماعت ) کے منصب پر فائز ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا اور جماعت اسلامی امریکہ اور سعودی عرب کے تعاون سے چھیڑی جانے والی جنگ کے اہم مہرے کے طور پر سامنے آئی۔ اس زمانے میں پختون ہونا بہت اہمیت کا حامل تھا۔ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے ایک مثالی رہنما تھے اور سٹوڈنٹ ونگ میں ہر دلعزیز۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا امکانی طور پر انہیں جماعت کے منصب امارت تک پہنچانے میں ہاتھ تھا۔ تاکہ وہ لاہور کو مرکز بنا کر کام کرنے والی جماعت کو چلائیں کیونکہ ان سے پہلے پنجابی امیر(میاں طفیل محمد ) سیاسی طورپر ذہین و فطین ہونے کی شہرت نہ رکھتے تھے۔ قاضی حسین احمد نے جب 1987میں امارت کا منصب سنبھالا تو افغان جہاد خاتمے کے قریب تھا جبکہ مقبوضہ کشمیر میں جہادی سرگرمیوں کی صف بندی ہورہی تھی۔
کرشماتی شخصیت کے مالک قاضی حسین احمد کی شناسائی افغان رہنماؤں سے اس دور میں ہوئی جب وہ پشاور میں وقت گزاررہے تھے ا ور پاک فوج کی قیادت میں سرخ روسی فوجوں سے نبردآزما تھے۔انہوں نے حزب اسلامی کے رہنما ، گلبدین حکمت یار کے ساتھ اپنے روابط کو مضبوط کیا اور انہیں طاقتور بنایا ۔اس لیے کہ ISIنے فنڈز اور ہتھیاروں کی فراہمی میں ہمیشہ اس افغان رہنما کو ترجیح دی۔
بیش تر لوگوں کا خیال ہے کہ حکمت یار کے ساتھ قاضی حسین احمد کی دوستی کا سبب نقطہ نظر کی ہم آہنگی تھی۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس دوستی کی بنیادی وجہ وہ احترام تھا جو حکمت یا رقاضی صاحب کے لیے رکھتے تھے۔ بد قسمتی سے اول الذکر کی بہت زیادہ شکی اور ضدی طبیعت نے معاملات کو پہلے کی طرح نہ رہنے دیا۔
قاضی حسین احمد نے مجاہدین سے لڑنے پر کبھی ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی ،اس لیے کہ وہ پختون اور شمالی اتحاد کے اختلاف کو پسند نہ کرتے تھے۔ جب فتح قریب تھی، ایک پاکستانی صحافی 2001میں قاضی حسین احمد کے ساتھ ایران گیا ۔یہاں حکمت یار اور قاضی حسین احمد کی ملاقات ہوئی۔حکمت یار نے ایران سے پناہ طلب کی تھی۔ دوران ملاقات قاضی حسین احمد نے شکوہ کیا کہ حکمت یار نے شمالی اتحاد کے رہنما احمد شاہ مسعود کے ساتھ رابطہ نہیں کیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مجاہدین آپس میں لڑیں۔ دوسری جانب حکمت یار نے اختلاف کرتے ہوئے قاضی صاحب کے احترام کے ساتھ اپنے نقطۂ نظر کا دفاع کیا۔
اپنی وفات سے چند روز قبل انہوں نے پاکستانی فوج کو مشورہ دیا کہ افغانستان کے معاملات میں دخل دینے سے گریز کرے اور انہیں خود اپنے مسائل حل کرنے دے ۔ افغانستان میں بھارت کی موجودگی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ افغانستان کبھی بھارت کی ڈکٹیشن پر چلنے والا نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جنوبی افغانستان کے پشتونوں کا شمال کے غیرپختونوں کے ساتھ دوستانہ تعلق نہایت ضروری ہے۔
قاضی حسین احمدکی نرمی ایک تدریجی عمل تھا۔ یہ جماعت اسلامی کے لیے بھی اچھا تھا کیونکہ افغانستان اور بھارت میں جہاد پر اہلحدیث اور دیوبندی مکتب فکر کی اجارہ داری تھی لیکن قاضی صاحب کا اولین دور ایک انقلابی مرحلہ تھا ۔1990میں انہوں نے اپنی توجہات کو داخل کی طرف مرکوز کیا۔
قاضی حسین احمد نے پاسبان بنا کر سماجی انصاف اور مساوات کا علم بلند کیا اور پاکستانی معاشرہ کو انقلاب آشنا کرنے کی جدوجہد کا ڈول ڈالا۔تاکہ پاکستانی معاشرے میں انقلاب کے لیے ،عدل اجتماعی اور مساوات اُن کی نوجوانوں کی تنظیم پاسبان کے ذریعے نافذ ہوں۔
اس کا نعرہ یہ تھاکہ ’’ اگرہم دولت کی منصفانہ تقسیم نہ کرسکے تو بھوک اور غربت مزید بڑھے اور پھیلے گی۔‘‘ قاضی حسین احمد پُرجوش جلوسوں کے آگے آگے ’’ ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘کا نعرہ لگاتے ہوئے آجاتے۔ حکومت پر دباؤ ڈالنے اور متوسط طبقے کواپنی متبادل قیادت کی طرف لانے کے لیے انہوں نے ’دھرنوں‘‘ کا راستہ اختیار کیا۔ جس کے ذریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے پر کشش پاسبان کو چلانے میں انہوں نے اپنی زندگی کے چند سبق سیکھے۔ جب ان پر یہ انکشاف ہوا کہ پاسبان میں خفیہ اداروں کے لوگ شامل ہوگئے ہیں۔ 1994میں پاسبان کے پر تشدد احتجاج سے تنگ آکر انہوں نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ صرف پاسبان کو ان کے سیاسی کیریئر پر داغ قرار دیا جاسکتا ہے۔انہوں نے شباب ملی قائم کی جسے انہوں نے مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا ۔ لیکن جوش و جذبے سے معمور اور متحرک نوجوانوں کا ساتھ نہ حاصل ہوسکا۔ پاسبان نے جو شعلہ فروزاں کیا تھا وہ غائب ہوگیا ،جماعت کو متحرک کرنے میں پاسبان نے اپنا کردار ادا کیا۔
قاضی حسین احمد ایک متقی، نیک، خوش اطوار انسان تھے اور ایک مبلغ بھی۔ وہ جماعت کے اسلامی کے بانی مودودی کے افکار و نظریات کے وفادار رہے۔ اخوان المسلمون کے ساتھ بھی ان کے مسلسل روابط بحال رہے ۔ حسن البناء کی کتب جماعت کے اداروں سے شائع ہوتی رہیں۔وہ اخوان کے رہنما سید قطب کے نظریات کو بھی اسلامی ریاست کے قیام کے سلسلے میں غیر معمولی اہمیت دیتے ۔ جماعت اسلامی جہاد کے بارے میں اس طر ح سرگرم نہ رہی جس طرح پہلے تھی تو لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیمیں سامنے آئیں اور سرگرم ہوگئیں۔القاعدہ آج بھی سید قطب کے اپنا استاد ہونے پر فخر کرتی ہے۔
بہت سے دوسرے طریقوں سے بھی قاضی صاحب نے مودودی کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے اپنے آپ کومذہبی جماعتوں کی شیعہ سنی تقسیم سے دور رکھا اور اپنی بہترین کوششیں اس پر صرف کیں کہ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران میں بڑھتی ہوئی فرقہ ورانہ منافرت سے بچایا جائے۔ایک مرتبہ جب شدت پسند جوشیلے نوجوان مال روڈ لاہور پر ایران کے کلچرل سنٹر کو تباہ کررہے تھے ۔ انہوں نے مظاہرین کو معقول بات سکھانے کے لیے اچانک پہنچ کر سب کو حیرت زدہ کردیا۔
وسیع تجربے اور لوگوں کے بدلتے ہوئے رویوں نے انہیں بہت کچھ سوچنے سمجھنے کی طرف مائل کیا۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان نے اپنی کتاب "Pakistan and Afghanistan:conflict, Extremism and resistance to modernity"
میں 2011میں لکھا ہے کہ1992کے نام نہاد پشاور معاہدے کے ضمن میں جب قاضی حسین احمد نے 20۔ اپریل کی سہ پہر کو دو رہنماؤں حکمت یار اور احمد شاہ مسعود سے بات کی اور انہیں وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں شرکت پر رضامند کرنا چاہا لیکن کئی گھنٹے ان کے ساتھ گذارنے کے بعد جب انہوں نے بات نہ مانی اس پر انہوں نے بہت تکلیف محسوس کی۔ ایک وقت تھا کہ جب یہ( افغان رہنما) ان سے تعاون کی درخواستیں کیا کرتے تھے ۔
جماعت اسلامی کی ویب سائٹ بتاتی ہے کہ قاضی حسین احمد تحریک اسلامی سوڈان کے قائد حسن ترابی اور مرد آہن عمر حسن البشیر کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں کامیاب رہے۔ اس طرح وہ کشمیر ی مجاہدین کے درمیان بھی اختلاف ختم کرنے کے لیے کوشاں رہے۔
2002کے قومی انتخابات جماعت کی زندگی میں بہت مشکل تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کو دستور پاکستان میں ترامیم کا اختیار دیا تھا۔ دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی مدد سے انہیں صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں اکثریت حاصل ہوئی۔ قاضی حسین احمد اس دوران ایم ایم اے کے صدر بن گئے۔ اس میں تمام بڑی مذہبی جماعتوں بشمول شیعہ امید کے ساتھ شامل ہوگئے۔
مجلس عمل کاتجربہ قاضی حسین احمد کے لیے کوئی بہت اچھا تجربہ ثابت نہ ہوا۔ اس طرح طالبان کی ابھرتی ہوئی طاقت نے بھی جماعت اسلامی کے اثرو رسوخ اور پوزیشن کو کمزور کیا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کو سنبھالنا اور کنٹرول کرنا بھی ایک مشکل کام رہا۔ ایم ایم اے کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد صوفی محمد نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے ذریعے سوات میں جمہوریت اور آئین پاکستان کو غیر اسلامی قرار دیا اور قاضی حسین احمد اور دیگر اعتدال پسندوں کو رد کردیا۔ اسی طرح اس زمانہ میں ’’ حسبہ بل ‘‘ لایا گیا جس کے ذریعے طالبان کے زمانے کے افغانستان کی طرح اخلاقی پولیس قائم کرنے کی طرف پیش رفت ہوئی۔ ایم ایم اے کے بعد قاضی حسین احمد نے ملی یکجہتی کونسل کے ذریعے حالات کو بہتر بنانے اور سدھارنے کی کوشش کی۔ قاضی حسین احمد کی معتدل شخصیت اور اعتدال پسندانہ آواز نہ سننے کے باعث فرقہ واریت کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ بلوچستان کے 6لاکھ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے افرادمیں سے 8ہزار پر تشدد واقعات میں مارے گئے۔
قاضی حسین احمد سے جو ایک مرتبہ مل لیتا ، ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ ہوجاتا، وہ بے خوف اور دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ لوگوں کو ڈرانے دھمکانے سے زیادہ معاملات کو بہتر بنانے اور اخروی نجات کی طرف متوجہ کرتے ۔ وہ اعتدال پسند اور میانہ رو تھے۔ مخالفین کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ لچکدار ہوتا ۔ وہ مشکل وقت میں اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی دوستوں والا معاملہ کرتے۔سیاسی طور پر متضاد نقطہ نظر رکھنے والے دائرے میں بھی ان کی کوششیں اثر انگیز ثابت ہوتی تھیں۔
پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ قاضی حسین احمد کبھی کبھی جماعت کے نظریات اور اصولوں کے خلاف بھی چلے جاتے اور یہ چیز جماعت اسلامی کے کارکنان کو محسوس ہوتی۔ بطور امیر جماعت انہوں نے جماعت کو قومی سطح کی پارٹی بنایا لیکن وہ اسے نمایاں طور پر وسعت دینے ناکام رہے۔ ( ان کی کاوشوں کے سبب جماعت کے ممبران کی تعداد 45لاکھ تک پہنچ گئی) وہ نہ جھکنے والے اور نہ بکنے والے ، کھلے ذہن کے رہنما تھے۔ ان سے چاہے کوئی مذہبی آدمی ملتا یا سیکولر اور لبرل وہ اسے پوری توجہ دیتے ۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے حوالے سے وہ بہت پر امید رہتے اور کامیابیوں سے خوش ہوتے۔ پاکستان جیسے ملک کو قاضی حسین احمد جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے۔
احمد رشید ماہر طالبان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی دنیا کی اہم اور معروف تنظیم اخوان المسلمون جیسے نظریات و خیال رکھنے کی حامل جماعت ہے۔ جماعت بنیادی انسانی حقوق ، حقوق نسواں، جمہوریت اور جدید خیال رکھتی ہے ۔ جماعت رد عمل کی سیاست کرتی ہے۔ وہ الزام دیتے ہیں کہ جماعت اشرافیہ کی جماعت بنادی گئی ہے۔ موجودہ دور میں دنیا بھر کی لیڈر شپ کا موازنہ کریں تو وہ جدید نظر آتی ہے مگر اخوان المسلمون اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے ساتھ موازنہ کریں تو ایسے لگتا ہے کہ یہ وہ کچھ نہیں کرسکے جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔
موجودہ جماعتی قیادت شاید کسی حد تک جماعت کے نظریات کو موجودہ دور سے ہم آہنگ کرسکی ہے لیکن بڑے پیمانے پر نوجوان نسل کو جدید اسلامی نظریات سے ہم آہنگ نہیں کیا جاسکاہے۔
قاصی حسین احمد نے جماعت اسلامی پر اپنے گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک طویل عرصہ وہ اپنی جماعت میں کبھی چیلنج نہیں کیے جاسکے۔ انہوں نے مشکلات سے گذر کر اپنی سیاست کو نیا آہنگ دیا۔ وہ مجاہدین اور دینی جماعتوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں کو ناپسند کرتے۔ وہ محسوس کرتے کہ ایم ایم اے کے دور حکومت میں صوبہ خیبر پختونخواہ کو اسلامی نظام کی برکات و حسنات سے مکمل طور پرفیض یاب نہیں کیاجاسکا۔
قاضی حسین احمد سینیٹر اور ممبر قومی اسمبلی رہے اور وہ بہت سوں کے لئے سائبان کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ دنیا کو اپنا بنالینے اور اسے مسخر کرنے کی صلاحیت سے مالامال تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستانی طالبان نے انہیں اپنا نشانہ بنایا۔ لیکن طالبان کے ساتھ براہ راست کشمکش کی بجائے ان کا کہنا تھا کہ یہ در اصل برائی کے محور امریکہ ، انڈیا اور اسرائیل کی کارروائی تھی۔
یہ بات غلط ہے کہ جو کسی کی جانب سے کہی جاتی ہے کہ قاضی حسین احمد کے ایک عظیم کردار کو بہر حال نظر انداز کیا گیا۔ جدید خیالات کا حامل ہونے کے باوجود انہوں نے پاکستانی ٹی وی چینلوں پر چلنے والے فحش اور مخرب اخلاق پروگرامات کو قانون کے تحت چیلنج کیا۔ وہ عام لوگوں اور اپنے حریفوں کو مصیبت میں دیکھ کر خوش نہ ہوسکتے۔ یہ حیران کن بات تھی کہ جب قوم محسوس کرتی کہ کسی مسئلہ پر سب کا اتفاق رائے موجود ہے مگر وہ اس سے متفق نہ ہوتے۔ لیکن دائیں بازو کے لکھنے والے ان کی بزرگی کی وجہ سے ان سے اختلاف نہ کرتے ۔
ٹی وی اینکر اور لبرل خیالات کے حامل جریدے فرائیڈے ٹائمز کے پبلشر نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ جب میں نواز شریف کے دور حکومت میں سیف الرحمن ( احتساب بیورو) کے زیر عتاب تھا۔ اور فرائیڈے ٹائمز کے چھاپنے پر پابندی تھی ، یہ قاضی حسین احمد ہی تھے جو میرے کام آئے اور مجھے تحفظ دیا اور میگزین جماعت اسلامی کے چھاپہ خانے میں شائع ہوا۔ ان کے اس عمل کو میں کبھی نہیں بھلا سکتا ۔
:نوٹ
کے ۲۵ جنوری ۲۰۱۳ کے شمارے میں News Week Pakistan کے عنوان سے "Saint Qazi"یہ
شائع ہونے والی خالد احمد اور عدنان صدیقی کی تحریرکاترجمہ ہے
2 comments:
Nice Translation
hey yeh bhi yad ka ik bahana
Post a Comment