پروفیسر ڈاکٹر عبدالحق‘ دلّی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ رہے ہیں۔ آج کل اسی یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریطس ہیں۔ یہ اعزاز بھارت کے مسلم اردو اساتذہ کے حصے میں کم ہی آیا ہوگا۔ کشمیر یونیورسٹی سری نگر کے اقبال انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ بطور وزٹنگ پروفیسر بھی وابستہ رہے۔ اب بھی وہ ایک دو ماہ کے لیے سری نگر جاکر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات کے سلسلے میں طلبہ و طالبات کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اقبالیات ان کا خاص موضوع ہے۔پروفیسر ڈاکٹر عبدالحق نے گھورکھپور یونیورسٹی سے اقبالیات میں پی ایچ ڈی کیا تھا۔ جون پور (یو پی) ان کا وطن مالوف ہے۔ حلقہ ادب اسلامی ہند کے ادبی ترجمان ’’پیش رفت‘‘ کی مجلس مشاورت و ادارت کے ممبر ہیں۔ آپ کی تقریباً 35 تصنیفات و تالیفات زیورِ طباعت سے آراستہ ہوچکی ہیں جن کے موضوع متنوع ہیں مثلاً اقبالیات‘ رشید احمد صدیقی‘ لغات‘ شاعری‘ تراجم وغیرہ۔ گزشتہ دنوں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کی دعوت پر اقبال انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لائے۔ فیصل آباد کے بعد انہوں نے سرگودھا یونیورسٹی میں بھی اقبال شناسی کے موضوع پر لیکچر دیا۔ ایک ملاقات میں ان سے کچھ گفتگو رہی جو نذرِ قارئین ہے۔ عمران ظہور غازی
سوال: ڈاکٹر صاحب! ان دنوں بھارت میں اردو ادب میں کیا رجحان ہے؟ کیسا ادب تحقیق ہورہا ہے؟
جواب:آج کل اردو ادب میں غزل کا رجحان غالب ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر غزل لکھی جارہی ہے۔ بلاشبہ غزل تخلیقی صلاحیت کا بڑا اظہار ہے۔ یہ خیال رہے کہ بعض اوقات غزل سفلی جذبات کے اظہار کا ذریعہ بن کر رہ جاتی ہے اور یوں ادب زندگی سے فرار کا سبق پڑھانے اور عادت و اطوار بگاڑنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہندوستانی مسلم معاشرے کو خراب کرنے میں غزل کی شاعری اور تصوف کا بڑا ہاتھ ہے۔
سوال: اقبال بھی تو غزل کہتے تھے؟
جواب: علامہ محمد اقبال ذہن و فکر کو جِلا بخشنے والے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری سے میرے ذہن و فکر کو بھی جِلا ملی۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی نے اقبال کی شاعری کو قرآن مجید کی اس آیت سے مستثنیٰ قرار دیا تھا جس میں شاعروں کو ہر وادی میں بھٹکنے والا قرار دیا گیا۔ اقبال کی شاعری دینی و اسلامی شاعری ہے، وہ دینی حدود سے باہر نہیں نکلتے۔
سوال: بھارت میں اقبال کے تعارف کا کیا حال ہے؟
جواب: ہندوستان میں گائوں گائوں بچے اقبال کو پڑھتے ہیں۔ صبح اسکولوں میں پڑھی جانے والی دعا ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ بہترین دعا ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی دعا ہے۔ آج تک اس کے مقابلے کی کوئی دعا نہیں لکھی جاسکی۔
ہندوستان میں اقبال کی مقبولیت آزادی کے بعد شروع ہوئی جب منظرنامہ بدلا۔ مسلمانوں کا اقبال سے بہتر اور بڑھ کر کوئی ترجمان نہیں۔ اقبال مسلم ذہن و فکر کی آبیاری کرتے ہیں اور اس طرح تربیت و تزکیہ کا ذریعہ بھی ہیں۔ کوئی عالم ہو یا خطیب، یا زندگی کے کسی دوسرے شعبے سے وابستہ فرد… اقبال کے حوالے کے بغیر ان کی گفتگو مکمل نہیں ہوتی۔ اقبال نے اہلِ چین کے بارے میں لکھا، جس کے چینیوں پر گہرے اثرات پڑے۔ اقبال صرف برصغیر کے دانشور نہیں، آفاقی دانشور ہیں۔ برصغیر میں تو جس کو دانشور بننا ہو اقبال کو جانے بغیر وہ دانشوری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
ہندوستان میں سول آفیسر “IC” بننا ہو یا VC`s کی دوڑ‘ اقبال کو جاننا نہایت اہم ہے۔ کوئی مسلمان بھی دانشوری کے زمرے میں شامل ہونا چاہے تو اس کے لیے اقبال کو جاننا ضروری قرار پایا ہے۔ عربی‘ فارسی اور اسلامیات پڑھانے والے تو قطعی طور پر اقبال ناشناس نہیں ہوسکتے۔ اقبال پاکستان سے زیادہ بھارت میں مقبول ہیں۔ بھارت میں اقبال اکیڈمیوں‘ انسٹی ٹیوٹس‘ چیئرز کی اچھی خاصی اور بڑی تعداد موجود ہے۔ سیمینار ہوتے ہیں، سالانہ کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا ہے اور ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ کتابیں چھپ رہی ہیں۔ اردو کے ہر قابلِ ذکر نقاد نے اقبال پر ضرور کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ میں نے ایک بار جناب شمس الرحمن فاروقی سے جو ہندوستان کے بڑے دانشور‘ نقاد اور ادیب ہیں، کہا کہ اگر آپ اقبال پر ایک کتاب نہیں لکھیں گے تو آپ کی مغفرت نہیں ہوگی۔ تو جناب اقبال پر ان کی کتاب چھپ گئی ہے۔
سوال: عوام الناس کی سطح پر اقبال سے تعلق کی کیا نوعیت ہے؟
جواب: چند برسوں سے ہندوستان میں 9نومبر کو ’’یوم اردو‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے والے مقامات میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ علاوہ ازیں کشمیر یونیورسٹی نے ہزاروں کی تعداد میں کلام اقبال کے اسٹکرز چھپواکر وادی کشمیر کے گھر گھر میں اقبال کا کلام پہنچانے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ اس کے نتیجے میں اقبال کے کتنے ہی شعر زبان زد عام ہوگئے۔ ’’اقبال ڈے‘‘ پر ہندوستان کے اردو اور انگریزی اخبارات زیادہ اہتمام سے مضامین شائع کرتے ہیں۔ اقبال اہلِ ہندوستان کے بھی شاعر ہیں۔ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ اقبال کی وہ خوبصورت اور لافانی نظم ہے جس سے بہتر اور خوبصورت نظم آج تک نہیں لکھی گئی۔
سوال:کیا کشمیر میں بھی اقبال ڈے منایا جاتا ہے؟
جواب:(جی ہاں) کشمیر میں تو اقبال ڈے زیادہ اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ کشمیر میں 9 نومبر کو سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ اقبال اہلِ کشمیر کی زندگی میں دخیل ہے۔ اقبال نے جتنا کشمیر اور اہلِ کشمیر کا تذکرہ کیا ہے کسی اور نے کم ہی کیا ہوگا۔ شاہ ہمدان‘ غنی کاشمیری‘ درگاہ چرار شریف اور مخدوم شاہ کا اثر اہلِ کشمیر پر اپنی جگہ… مگر اقبال کا اثر بہت زیادہ ہے۔ کشمیر میں اقبال کا کلام منظوم کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اور نظم اقبال کے تراجم کشمیری زبان میں ہونے لگے ہیں۔ ’’چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا‘‘ اور ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ جیسی لافانی نظموں کے تراجم ہوگئے ہیں۔ یونیورسٹی سطح پر اقبال انسٹی ٹیوٹ قائم ہے۔
سوال: پاکستان میں اقبال پر ہونے والے کام کے بارے میں کچھ فرمایئے۔
جواب: بنیادی طور پر اقبال اہلِ پنجاب کے شاعر ہیں، مگر اہلِ پنجاب اور اہلِ پاکستان نے اقبال کی وہ قدر نہیں کی جس کے وہ حقدار تھے، بلکہ ناقدری کی۔ اہلِ پاکستان اور اہلِ پنجاب کو اپنے اس شاعر کی قدر کرنی چاہیے اور اقبال کے شایانِ شان اقدامات کرنے چاہئیں۔ بین الاقوامی کانفرنسوں کے ذریعے اقبال کی فکر اور خیالات کو اجاگر کرنا چاہیے۔ یونیورسٹیاں اس کا اہتمام کریں، اقبال چیئرز قائم کریں۔ قوموں کی شناخت انڈسٹری‘ ایکسپورٹ اور امپورٹ سے نہیں ہوتی بلکہ علمی و تحقیقی جوش و خروش اور جذبات سے ہوتی ہے۔
سوال: یہاں اقبال اکیڈمی ہے‘ بزم اقبال ہے اور بھی کچھ ادارے کام کررہے ہیں؟
جواب: جی ہاں‘ یہ ادارے کام کررہے ہیں جو مفید ہے، مگر اور زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر اقبال اکادمی نے بہت کام کیا ہے، اس کا لٹریچر اور سی ڈیز وغیرہ بھارت میں بھی بہت مقبول ہیں۔ جب کبھی دہلی کے کتاب میلے میں اقبال اکادمی والے اسٹال لگاتے ہیں تو سب کچھ بک جاتا ہے۔
سوال: بھارت میں اردو کا کیا حال ہے؟
جواب: بحیثیتِ مجموعی بھارت میں خواندگی کی شرح روزافزوں ہے۔ اب 66 فیصد کے لگ بھگ خواندگی ہے۔ وہاں اردو کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اردو نہ بول سکنے والے بھی اردو سمجھ لیتے ہیں۔ انڈین فلم انڈسٹری نے اردو زبان کی معنویت کو فروغ دیا ہے اور اب Elitenessکی پہچان بن گئی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لوگ اردو سمجھنے کے لیے داخلہ لیتے ہیں، اور یہ رجحان بڑھا ہے۔ عام لوگ اردو ڈپلومہ کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں 100 داخلوں کی گنجائش ہوتی ہے وہاں پانچ پانچ سو لوگ داخلہ کے لیے آجاتے ہیں۔ بھارت میں اردو اچھے اظہار بیان اور Status کی علامت بن گئی ہے۔ اردو تاجر‘ وکلا اور اشرافیہ کی زبان کے طور پر سامنے آئی ہے۔
سوال: بحیثیتِ مجموعی بھارت کے مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ ان کا سیاست میں کتنا وزن ہے؟
جواب: بھارت میں 20کروڑ کے لگ بھگ مسلمان ہیں مگر افسوس کہ انتشار و افتراق کا شکار ہیں اور دن بدن اس میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، باوجودیکہ مختلف گروہ اور جماعتیں مسلمانوں کے اتحاد کے لیے مسلسل کام کررہے ہیں، جن میں نمایاں طور پر سید جلال الدین عمری ہیں، اس سے پہلے ڈاکٹر عبدالحق انصاری مرحوم بھی کوششیں کرتے رہے۔
سوال: موجودہ دور میں اردو کے شاعر کون قرار دیے جاسکتے ہیں؟
جواب: بلاشبہ فیض اور فراز اردو کے بڑے شاعر ہیں، ان دونوں کی شاعری خلافِ اسلام نہیں۔ فیض‘ اقبال سے متاثر تھے اور اقبال اسلام کے نمائندے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ فیض کی شاعری میں کوئی لفظ اسلام کے خلاف نہیں ملتا۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! ان دنوں بھارت میں اردو ادب میں کیا رجحان ہے؟ کیسا ادب تحقیق ہورہا ہے؟
جواب:آج کل اردو ادب میں غزل کا رجحان غالب ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر غزل لکھی جارہی ہے۔ بلاشبہ غزل تخلیقی صلاحیت کا بڑا اظہار ہے۔ یہ خیال رہے کہ بعض اوقات غزل سفلی جذبات کے اظہار کا ذریعہ بن کر رہ جاتی ہے اور یوں ادب زندگی سے فرار کا سبق پڑھانے اور عادت و اطوار بگاڑنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہندوستانی مسلم معاشرے کو خراب کرنے میں غزل کی شاعری اور تصوف کا بڑا ہاتھ ہے۔
سوال: اقبال بھی تو غزل کہتے تھے؟
جواب: علامہ محمد اقبال ذہن و فکر کو جِلا بخشنے والے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری سے میرے ذہن و فکر کو بھی جِلا ملی۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی نے اقبال کی شاعری کو قرآن مجید کی اس آیت سے مستثنیٰ قرار دیا تھا جس میں شاعروں کو ہر وادی میں بھٹکنے والا قرار دیا گیا۔ اقبال کی شاعری دینی و اسلامی شاعری ہے، وہ دینی حدود سے باہر نہیں نکلتے۔
سوال: بھارت میں اقبال کے تعارف کا کیا حال ہے؟
جواب: ہندوستان میں گائوں گائوں بچے اقبال کو پڑھتے ہیں۔ صبح اسکولوں میں پڑھی جانے والی دعا ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ بہترین دعا ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی دعا ہے۔ آج تک اس کے مقابلے کی کوئی دعا نہیں لکھی جاسکی۔
ہندوستان میں اقبال کی مقبولیت آزادی کے بعد شروع ہوئی جب منظرنامہ بدلا۔ مسلمانوں کا اقبال سے بہتر اور بڑھ کر کوئی ترجمان نہیں۔ اقبال مسلم ذہن و فکر کی آبیاری کرتے ہیں اور اس طرح تربیت و تزکیہ کا ذریعہ بھی ہیں۔ کوئی عالم ہو یا خطیب، یا زندگی کے کسی دوسرے شعبے سے وابستہ فرد… اقبال کے حوالے کے بغیر ان کی گفتگو مکمل نہیں ہوتی۔ اقبال نے اہلِ چین کے بارے میں لکھا، جس کے چینیوں پر گہرے اثرات پڑے۔ اقبال صرف برصغیر کے دانشور نہیں، آفاقی دانشور ہیں۔ برصغیر میں تو جس کو دانشور بننا ہو اقبال کو جانے بغیر وہ دانشوری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
ہندوستان میں سول آفیسر “IC” بننا ہو یا VC`s کی دوڑ‘ اقبال کو جاننا نہایت اہم ہے۔ کوئی مسلمان بھی دانشوری کے زمرے میں شامل ہونا چاہے تو اس کے لیے اقبال کو جاننا ضروری قرار پایا ہے۔ عربی‘ فارسی اور اسلامیات پڑھانے والے تو قطعی طور پر اقبال ناشناس نہیں ہوسکتے۔ اقبال پاکستان سے زیادہ بھارت میں مقبول ہیں۔ بھارت میں اقبال اکیڈمیوں‘ انسٹی ٹیوٹس‘ چیئرز کی اچھی خاصی اور بڑی تعداد موجود ہے۔ سیمینار ہوتے ہیں، سالانہ کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا ہے اور ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ کتابیں چھپ رہی ہیں۔ اردو کے ہر قابلِ ذکر نقاد نے اقبال پر ضرور کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ میں نے ایک بار جناب شمس الرحمن فاروقی سے جو ہندوستان کے بڑے دانشور‘ نقاد اور ادیب ہیں، کہا کہ اگر آپ اقبال پر ایک کتاب نہیں لکھیں گے تو آپ کی مغفرت نہیں ہوگی۔ تو جناب اقبال پر ان کی کتاب چھپ گئی ہے۔
سوال: عوام الناس کی سطح پر اقبال سے تعلق کی کیا نوعیت ہے؟
جواب: چند برسوں سے ہندوستان میں 9نومبر کو ’’یوم اردو‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے والے مقامات میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ علاوہ ازیں کشمیر یونیورسٹی نے ہزاروں کی تعداد میں کلام اقبال کے اسٹکرز چھپواکر وادی کشمیر کے گھر گھر میں اقبال کا کلام پہنچانے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ اس کے نتیجے میں اقبال کے کتنے ہی شعر زبان زد عام ہوگئے۔ ’’اقبال ڈے‘‘ پر ہندوستان کے اردو اور انگریزی اخبارات زیادہ اہتمام سے مضامین شائع کرتے ہیں۔ اقبال اہلِ ہندوستان کے بھی شاعر ہیں۔ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ اقبال کی وہ خوبصورت اور لافانی نظم ہے جس سے بہتر اور خوبصورت نظم آج تک نہیں لکھی گئی۔
سوال:کیا کشمیر میں بھی اقبال ڈے منایا جاتا ہے؟
جواب:(جی ہاں) کشمیر میں تو اقبال ڈے زیادہ اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ کشمیر میں 9 نومبر کو سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ اقبال اہلِ کشمیر کی زندگی میں دخیل ہے۔ اقبال نے جتنا کشمیر اور اہلِ کشمیر کا تذکرہ کیا ہے کسی اور نے کم ہی کیا ہوگا۔ شاہ ہمدان‘ غنی کاشمیری‘ درگاہ چرار شریف اور مخدوم شاہ کا اثر اہلِ کشمیر پر اپنی جگہ… مگر اقبال کا اثر بہت زیادہ ہے۔ کشمیر میں اقبال کا کلام منظوم کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اور نظم اقبال کے تراجم کشمیری زبان میں ہونے لگے ہیں۔ ’’چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا‘‘ اور ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ جیسی لافانی نظموں کے تراجم ہوگئے ہیں۔ یونیورسٹی سطح پر اقبال انسٹی ٹیوٹ قائم ہے۔
سوال: پاکستان میں اقبال پر ہونے والے کام کے بارے میں کچھ فرمایئے۔
جواب: بنیادی طور پر اقبال اہلِ پنجاب کے شاعر ہیں، مگر اہلِ پنجاب اور اہلِ پاکستان نے اقبال کی وہ قدر نہیں کی جس کے وہ حقدار تھے، بلکہ ناقدری کی۔ اہلِ پاکستان اور اہلِ پنجاب کو اپنے اس شاعر کی قدر کرنی چاہیے اور اقبال کے شایانِ شان اقدامات کرنے چاہئیں۔ بین الاقوامی کانفرنسوں کے ذریعے اقبال کی فکر اور خیالات کو اجاگر کرنا چاہیے۔ یونیورسٹیاں اس کا اہتمام کریں، اقبال چیئرز قائم کریں۔ قوموں کی شناخت انڈسٹری‘ ایکسپورٹ اور امپورٹ سے نہیں ہوتی بلکہ علمی و تحقیقی جوش و خروش اور جذبات سے ہوتی ہے۔
سوال: یہاں اقبال اکیڈمی ہے‘ بزم اقبال ہے اور بھی کچھ ادارے کام کررہے ہیں؟
جواب: جی ہاں‘ یہ ادارے کام کررہے ہیں جو مفید ہے، مگر اور زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر اقبال اکادمی نے بہت کام کیا ہے، اس کا لٹریچر اور سی ڈیز وغیرہ بھارت میں بھی بہت مقبول ہیں۔ جب کبھی دہلی کے کتاب میلے میں اقبال اکادمی والے اسٹال لگاتے ہیں تو سب کچھ بک جاتا ہے۔
سوال: بھارت میں اردو کا کیا حال ہے؟
جواب: بحیثیتِ مجموعی بھارت میں خواندگی کی شرح روزافزوں ہے۔ اب 66 فیصد کے لگ بھگ خواندگی ہے۔ وہاں اردو کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اردو نہ بول سکنے والے بھی اردو سمجھ لیتے ہیں۔ انڈین فلم انڈسٹری نے اردو زبان کی معنویت کو فروغ دیا ہے اور اب Elitenessکی پہچان بن گئی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لوگ اردو سمجھنے کے لیے داخلہ لیتے ہیں، اور یہ رجحان بڑھا ہے۔ عام لوگ اردو ڈپلومہ کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں 100 داخلوں کی گنجائش ہوتی ہے وہاں پانچ پانچ سو لوگ داخلہ کے لیے آجاتے ہیں۔ بھارت میں اردو اچھے اظہار بیان اور Status کی علامت بن گئی ہے۔ اردو تاجر‘ وکلا اور اشرافیہ کی زبان کے طور پر سامنے آئی ہے۔
سوال: بحیثیتِ مجموعی بھارت کے مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ ان کا سیاست میں کتنا وزن ہے؟
جواب: بھارت میں 20کروڑ کے لگ بھگ مسلمان ہیں مگر افسوس کہ انتشار و افتراق کا شکار ہیں اور دن بدن اس میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، باوجودیکہ مختلف گروہ اور جماعتیں مسلمانوں کے اتحاد کے لیے مسلسل کام کررہے ہیں، جن میں نمایاں طور پر سید جلال الدین عمری ہیں، اس سے پہلے ڈاکٹر عبدالحق انصاری مرحوم بھی کوششیں کرتے رہے۔
سوال: موجودہ دور میں اردو کے شاعر کون قرار دیے جاسکتے ہیں؟
جواب: بلاشبہ فیض اور فراز اردو کے بڑے شاعر ہیں، ان دونوں کی شاعری خلافِ اسلام نہیں۔ فیض‘ اقبال سے متاثر تھے اور اقبال اسلام کے نمائندے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ فیض کی شاعری میں کوئی لفظ اسلام کے خلاف نہیں ملتا۔