Sunday, 22 September 2013

دنیا کوآج پھر سید مودودیؒ کی ضرورت ہے

| |
سید مودودیؒ نے ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں آنکھ کھولی ،جب ہندوستان برطانوی سامراج کے مکمل گرفت،تسلط اور شکنجے میں تھا، تحریک آزادی ہند پورے جوبن پر تھی ،فرقہ دارانہ منافرت نے ملکی فضا کو مسموم کر رکھا تھا۔مسلمان دین بیزاری ، اخلاقی پستی،تعلیمی انحطاط اور احساس کمتری سے دوچار تھے۔مغربی طرز فکر و عمل ،طرزحیات و معاشرت اور طرزتعلیم ، کامیابی ،روشن خیالی اور سربلندی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ سائنسی ایجادات و اکتشافات نے دینی عقائد پر گہرا منفی اثر ڈالا ۔فرائڈ کا نظریہ جنس اور ڈارون کا نظریہ ارتقا ،سماجی و معاشرتی زندگی کے تمام دائروں بالخصوص ادب اور اصناف ادب کو شدید متاثر کر رکھا تھااور یہی نظریات معاشرے میں مقبولیت اور رواج پا رہے تھے۔ایسے میں مسلمانوں کی کیفیت پراگندہ گروہ سے زیادہ نہ تھی۔علامہ اقبال نے ایسی کیفیت کا یوں نقشہ کھینچا ہے ۔ 


دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا


یہ ایسا وقت تھا جب معاشرہ کسی مسیحا کا منتظر تھاقدرت کو شاید سید مودودیؒ سے یہ کام لینا مقصود تھا شاہ ولی اللہ دہلوی کے ٹھیک دو سو سال بعد سید مودودیؒ کو قدرت نے یہ کام سونپا ۔انہوں نے معاشرے کا علمی ،فکری، سیاسی و معاشرتی اور نظریاتی کیفیات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ۔وہ آنے والے حالات ، واقعات اور دور رس نتائج سے بھی پوری طرح بہرہ ور تھے، انہوں نے عوام الناس کو قرآن و سنت کے ساتھ جوڑنے کی سعی کی اور اپنے علم و عمل ،افکار ،جدید ذرائع ابلاغ اور تحریر و تقریر کی تمام صلاحیتیں اور توانائیاں کھپا دیں اور اپنے معجز نما قلم کے ذریعے باطل اور ملحدانہ افکار و نظریات کے تاروپود بکھیر کر رکھ دیے۔مغرب اور مغربی تہذیب کی تباہ کاریوں کا پردہ چاک کیا۔اسلام،اسلامی عقائد کا برتر ہونا دلائل سے ثابت کیا اور اسلام کو بطور نظام حیات پیش کیا۔ذہنی مرعوبیت اور احساس کمتری کا خاتمہ کیا۔غیر اسلامی نظریات کا بھرپور انداز میں مقابلہ کیا، فتنوں کا سدباب کیا، شکوک و شبہات کے کانٹے صاف کیے اور اس کے لئے مضبوط دلائل فراہم کیے۔
سید کا اسلوب سادہ اور سہل ہوتا وہ رعب ڈالتے تھے اور نہ مرعوب کرتے تھے۔وہ اپنے لٹریچر سے دل و دماغ فتح کرتے ، کتنے ہی الحاد و زندقہ میں مبتلا ان کے لٹریچر کے ذریعے اپنے نظریات سے تائب ہوکر سیدھے راستے پر آ گئے۔
سید مودودی ؒ دنیا سے رخصت ہو گئے مگر ان کا صدقہ جاریہ ۔۔ ان کے افکار اور جماعت اسلامی کی شکل میں موجود ہے ۔ان کا لٹریچر اسلام کی علمی و فکری برتری کا ذریعہ ہے جبکہ ان کی جماعت اور اس کی مضبوط تنظیم دعوت الی اللہ کے ابلاغ کا اہم اور مؤثر ذریعہ ہے۔
ان کی پہلی کتاب الجہاد فی الاسلام ہے جو انہوں نے ۲۴سال کی عمر میں لکھی ۔ یہ مولانا محمد علی جوہر کی اپیل کا نتیجہ تھی۔جبکہ حکیم الامت علامہ اقبال نے اس کتاب کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔’’اسلام کے نظریہ جہاد اور قانون صلح و جنگ پر یہ بہترین تصنیف ہے۔اور مَیں ہرذی علم آدمی کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔‘‘
جماعت اسلامی کا آغاز ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو لاہور میں ۷۵ ؍افراد اور ۷۴ روپے ۱۲ ؍آنے سے کیا۔ان کا لٹریچر اور جماعت ، اسلام کی سربلندی کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ملک کے کسی گوشے میں چلے جائیں یا دنیا کے ،سید کی فکر سے وابستہ افراد کار اقامت دین کی جد و جہد میں ایک ہی طرح کے جوش و جذبے کے ساتھ منہمک نظر آئیں گے ۔
سید نے لوگوں کو اپنی شخصیت کی طرف نہیں بلکہ دین کی طرف بلایا اور دعوت دی، انہوں نے اپنی ذات کو دوسروں سے بالاتر نہیں سمجھااور نہ جماعت پر مسلط رکھنے کی سعی کی۔بلکہ خود یہ پیش کش کی کہ جماعت کو مجھ سے بہتر آدمی مل جائے تو مَیں قیادت کی ذمہ داری سے دستبردار ہو جاؤں گا۔
سید مودودیؒ ۳۱ سال تک (۲۶ ؍اگست ۱۹۴۱سے یکم نومبر ۱۹۷۲تک) جماعت کے امیر رہے ۔امیر جماعت کی حیثیت شے نہ صرف تحریک کی علمی و فکری اور عملی رہنمائی کی بلکہ قوم کی رہنمائی کا فریضہ بھی سرانجام دیااور اپنی زندگی میں تحریک کی ذمہ داریاں نئے امیر میاں طفیل محمد ؒ کے سپرد کیں۔اور خود خالص علمی و تحقیقی کام میں مصروف ہو گئے۔جماعت کی امارت سے فراغت کے بعد سید ۷سال تک حیات رہے ،اس دوران انہوں نے جماعت کے نظم کی مکمل اطاعت اور نظم و ضبط کی پابندی کی۔ان کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی ۔
ان کی شخصیت محبت و شفقت ،ہمدردی ،غمخواری و غمگساری ،اخلاص و ایثار ،اپنائیت ، بے غرضی اور بے لوث جذبوں کی عکاس پُر وقاراور جرات و بہادری کا پیکر تھی ۔وہ مثالی نظم و ضبط کے پابند انسان تھے۔پابندئ وقت ان کی زندگی میں رچ بس چکی تھی۔پروگرام میں شریک ہوتے تو پابندئ وقت کا اتنا اہتمام کرتے کہ ان کی آمد پر لوگ اپنی گھڑیاں درست کر لیتے۔طبیعت میں بذلہ سنجی اورمزاح تھا،ان کے ساتھ رہنے والے خدمتگار ہوں یا ساتھی ،ان سے جتنا کوئی قریب ہوتا ان کی محبت کااسیر ہوتاجاتا۔رفقاء کی عزت و احترام پر آنچ نہ آنے دیتے، ان کی خوشی و غمی میں شرکت کرتے،ان کے حالات معلوم کرتے اور ان کی ضروریات اور جذبات کا خیال رکھتے۔
دعوت دین کے کام میں جتنے جدید ذرائع ہو سکتے تھے وہ استعمال میں لاتے، ۱۹۶۳ کے اجتماع عام میں جب حکومت نے لاؤڈسپیکر کے استعمال پر پابندی لگا دی تو اپنی گفتگو سامعین تک پہنچانے کے لئے مکبر استعمال کیے۔نماز کے لئے تو مکبر کا استعمال معمول کی بات ہے مگر لاؤڈسپیکر کے طور پر شاید پہلی اور نئی بات ،اپنی دعوت کے ابلاغ کے لئے خطوط کا وسیع پیمانے پر استعمال کیاگیا۔ روزانہ سینکڑوں خطوط وصول بھی کیے جاتے اور روانہ بھی۔عصری مجالس کے ذریعے دور دراز سے آنے والے کارکنان اور عوام الناس سے ملتے اور سوالات کے جوا بات دیتے۔اس طرح سائیکلو سٹائل ،اسٹنسل ، پمفلٹ،پوسٹر،پٹیاں وغیرہ کو جب کوئی اور جماعت استعمال نہیں کرتی تھی،جماعت اسلامی نے ان تمام ذرائع کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔
سید مودودی کی فکر عالمی اسلامی تحریکوں کیلئے بھی رہنمائی اور سہارا تھی ۔بالخصوص جب اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا اور سید قطب کو شہید کر دیا گیا ،سید کی گفتگوئیں ،اخباری بیانات قیمتی علمی نکات سے مزین ہوتے ،ان کی گفتگوئیں غور و فکر اور سوچ بچار کے دریچے وا کرنے ،دعوت و تربیت ،تنظیم، قرآن و سنت ،مقامی و عالمی سیاست اور انفرادی و اجتماعی زندگی بارے نہایت معقول، مدلل انداز سے ترتیب پائے ہوتے جو دلوں کو موہ لیتے،پڑھنے اور سننے والا یہ سمجھتا کہ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ 
قیام جماعت کے بعد سید مودودی ابتلاء آزمائشوں کے مصائب و مشکلات ،مخالفتوں ،الزامات،زبان بندی،قید و بند اور قید میں اذیتوں بھی گزرے ۔سزائے موت کی صعوبتوں سے بھی گزرے مگر خندہ پیشانی، جرات و ہمت اور نہایت حوصلے کے ساتھ تمام مصائب برداشت کیے۔مگر مجال ہے کہ قدم ذرا بھی ڈگمگائے ہوں۔ان آزمائشوں نے قدموں کو مزید ثبات اور استقامت سے نوازااور یہ وہی کر سکتا ہے جو کو اپنے رب پر کامل یقین اور بھروسہ رکھتا ہو ، جو اپنے مقصد زندگی کے ساتھ پورے شعور کے ساتھ وابستہ ہو۔انہوں نے تمام زندگی مقصد زندگی کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔
پاکستان کو اسلامی پاکستان بنانے میں جتنا حصہ اور کردار سید مودودیؒ اور ان کی برپا کردہ جماعت اسلامی کا ہے وہ تاریخ کا درخشاں اور روشن باب ہے۔پاکستان کو مثالی اسلامی ریاست کی تشکیل کے لئے دستوری جد و جہد کے ذریعے ٹھوس بنیادیں فراہم کیں اور آمریت کا مقابلہ کرتے ہوئے جمہوریت کی راہ ہموار کی۔ انہوں نے اسلام کے فلسفہ حیات کو ایسے انداز میں پیش کیا جبکہ اسے قابل عمل ہی نہیں سمجھا جاتا، مغربی مغربی افکار دماغوں پر چھائے ہوئے تھے، سید اور ان کی جماعت نے شاندار طریقے سے جدید مغربی نظریات کا مقابلہ کیا اور ان کو شکست فاش سے دوچار کیا۔مسلمانوں کو مرعوبیت اور احساس کمتری سے نکالااوراسلام کی علمی وفکری برتری مضبوط دلائل سے ثابت کی۔آج پھر معاشرہ جس کشمکش اور کیفیت میں مبتلا ہے، اسلام بیزار اور باغیانہ روش عام کی جا رہی ہے سیکولر اور لبرل قوتیں فکری انتشار پیدا کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں اس کی روک تھام اور انسداد سید مودودی کے افکار اور جماعت ہی کر سکتی ہے جو ایک مضبوط منظم اور مؤثر تنظیم رکھتی ہے۔
آج معاشرہ جس ڈگر پر ہے اور جس انحطاط سے دوچار ہے اس سے چھٹکارے اور خلاصی کے لئے ایک زبردست اخلاقی تحریک وقت کا تقاضا ہے۔یہ تحریک اس وقت برپا ہو سکتی ہے جب پوری قوم قرآن و سنت سے وابستہ ہو ،توبہ کا راستہ اپنائے اور مضبوطی کے ساتھ دین پر عمل پیرا ہو جائے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں جو قوم کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکالے، امید سے وابستہ کرے ۔یہی سید مودودی کا پیغام اور وقت کا تقاضا ہے۔گویا زمانے کو آج پھر سید مودودیؒ کی ضرورت ہے

8 comments:

عالمی سطح پر جو اسلامی تھریکں ابریں ہیں ان کی فکری راہنمائی سی دمودودی کے لڑٹچر نے کی،
سید مودودی کی تحرریوں نے امت مسلمہ میں بیداری پیدا کی اور عوام ک واسلام کا درست شعور عظا کیا

very good effort

ہمارے معاشرے میں سید ابوالاعلیٰ مووددیؒ صاحب جیسی شخصٰات کی تو اشد ضرورت ہے جو عوام کو بیدار کرے لیکن اس کے ساتھ ان کے لٹریچر سے بھی لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے۔ جس طرح آج بلاگ کے ذریعے بھی ان کے لٹریچر کو آگے پھیلا سکتے ہیں۔ اس لیےآپ سے امید کرتے ہیں کہ ان کے لٹریچر یا اس سے متعلق آرٹیکل لکھتے رہیں گے۔

Off course we need another Maududi R.A. He presented the theological teachings in extraordinary rationale way. Now doubt he was the Mujaddad of this era.

This comment has been removed by the author.

His literature reveals that he was a revolutionist in interpreting Islamic teachings.

Off course we need another Maududi R.A. He presented the theological teachings in extraordinary rationale way. Now doubt he was the Mujaddad of this era.

We don't need another madudi
His literature is enough for us
only think we have to do is to apply his teaching in our daily life

Post a Comment