اسلامی مہینے ذی الحجہ کے دسویں روز ،مسلمانان عالم حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ؑ کی عظیم قربانی کی یاد کے طور پر مناتے ہیں جو انہوں نے اپنے رب کے حضور پیش کی تھی،یہ دراصل اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ رب العلمین کا عطا کردہ ہے اور وہ اس لئے ہے کہ اسے اپنے اللہ کے راستے میں قربانی کر دیا جائے۔جانور کی قربانی اور اس کی گردن پر چھری پھیرنا اور خون بہانا اس بات کا عہد و پیمان اور اعلان ہوتا ہے کہ اے رب العالمین ! جس طرح تیری رضا کے لئے جانوروں کا خون پیش ہے اس طرح ہماری جان بھی حاضر ہے۔
اسلام سے قبل لوگ قربانی کرتے ،قربانی کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لا کر رکھ دیتے اور خون بیت اللہ کی دیواروں پر مل دیتے ۔قرآن مجید نے بتایا کہ اللہ رب العزت کو تمہارے خون اور گوشت کی ضرورت نہیں وہ اس سے بہت بلند و برتر ہے اس کو تمہارا وہ جذبہ اور خلوص درکار ہے جو تمہارے دل میں رواں دواں اور موجزن ہے سورۃ الحج میں ارشاد ربانی ہے :’’اللہ کو نہ گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، اسے تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘ (۳۷)
گویا قربانی گوشت اور خون کا نام نہیں بلکہ یہ اللہ کے راستے میں سب کچھ قربان کر دینے کے جذبے کا نام ہے۔ سورۃ الانعام میں ہے : ’’کہیے میری نماز میرے تمام مراسم عبودیت ،میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے (۱۶۲)
مرحوم ملک نصراللہ خاں عزیز نے اس آیت کی یوں ترجمانی کی :
۲۔ ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں میں تکبیرکہنا احادیث میں وارد ہے ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں میں بازار جاتے تو تکبیر کہتے اور ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی تکبیر کہتے (صحیح بخاری) اس ضمن میں فقہائے صحابہ اور ائمہ مجتہدین کا یہ مسلک ہے کہ یوم عرفہ کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن تک ،ہر نماز کے بعد تکبیر کہی جائے۔ جبکہ نماز عید کے لئے نکلتے وقت ہر شخص بلند آواز سے تکبیر کہے، یعنی ۹ ذی الحجہ کی فجر سے ۱۳ ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد تکبیر کہنی چاہیے۔
مردوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ گھروں ،بازاروں،مساجد اور راستوں میں بلند آواز سے تکبیر پکاریں اس طرح جہاں سنت پر عمل ہوگا وہیں اس کا اظہار و احیاء بھی عورتیں تنہائی میں ہوں تو بلند آواز میں اور اجنبی مردوں کے قریب یاسامنے ہوں تو دھیمے لہجے میں تکبیر کہیں ۔اصل حکم تو سب کے لئے بلند آواز میں تکبیر کہنے اور اللہ کی عظمت اور کبریائی بیان کرنے کا ہے تاکہ اللہ کی بندگی کا کھلم کھلا اعلان کیا جائے اور دوسری تمام بندگیوں کا انکار۔ یہ دراصل اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے شکر کا اظہاربھی ہے۔بلند آواز سے تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ جانا مسنون ہے لیکن لوگ آج کل اس پر کم ہی عمل کرتے نظر آتے ہیں اور یہ کوتاہی اور غفلت کے سوا کچھ نہیں، اس کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ بآواز بلند تکبیر کہنا چاہیے اور دوسروں کو بھی متوجہ کرنا چاہیے۔تکبیر کا مقصد ہر لمحے سامنے رہنا چاہیے ۔تکبیر کے الفاظ یہ ہیں:
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد
یہ وہ الفاظ ہیں جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ادا فرماتے تھے۔تکبیر کی ادائیگی انہی الفاظ میں کرنی چاہیے جن میں نبیﷺ نے کی۔ان الفاظ میں کمی بیشی کرنا کسی طرح مناسب نہیں۔
۳۔ کچھ کھائے بغیر عید گاہ جانا سنت نبوی میں سے ہے۔حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عید الفطر والے دن عید گاہ جانے سے قبل کچھ نہ کچھ تناول فرماتے جبکہ عید الاضحی والے دن کچھ نہ کھاتے، یہاں تک کہ نماز عید ادا کر لیتے (ترمذی) ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی ﷺ عید الفطر کے روز عیدگاہ کے لئے نہیں نکلتے تھے جب تک کچھ کھا نہ لیتے اور عید الاضحی کے دن کچھ نہ کھاتے، جب تک نماز عید سے فارغ ہو کر واپس گھرنہ آ جاتے۔پھرآپؐ اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے۔ اگر کسی نے عید گاہ جانے سے قبل بھول چوک سے کچھ کھا لیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔
۴۔ عید کی نماز کے لئے تیار ہونا ،اچھے کپڑے پہننا ،آرائش کرنااورخوشبو لگاناسنن و آداب میں سے ہے۔اس سے بندہ اللہ کی نعمتوں کا اظہار کرتا ہے اور اللہ اس عمل کو پسند فرماتا ہے۔حضورؐ نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر پر اپنی نعمتوں کے اثرات دیکھنا پسند کرتا ہے (سنن ابی داؤد) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں ’’حضور عید کے روز سرخ جبہ زیب تن فرماتے۔‘‘ ’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ عیدالفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل غسل کرتے ‘‘۔دوسری روایت کے مطابق آپؓ (یعنی عبداللہ بن عمرؓ ) امام کے ساتھ فجر کی نماز پڑھتے پھر گھر واپس آتے ،غسل فرماتے ،عمدہ ترین لباس پہنتے اور سب سے اچھی خوشبو لگا کر عید گاہ تشریف لے جاتے ۔‘‘
۵۔ عیدین کی نماز واجب ہے حضور ﷺ نے لوگوں کو اس کے لئے نکلنے کو کہا، یہاں تک کہ آپؐ نے نوجوان اور پردہ نشین خواتین کو بھی عیدگاہ آنے کا حکم فرمایا۔حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی میں نوجوان ماہواری میں مبتلا اور پردہ دار خواتین کو لائیں۔ماہواری میں مبتلا خواتین نماز نہ پڑھیں البتہ دعائے خیر میں ضرور شریک ہوں۔مَیں نے حضورؐ سے پوچھا کہ اگر کسی کے پاس جلباب نہ ہو تو ؟ آپؐ نے فرمایا اس کی سہیلی اسے اپنے جلباب میں لے لے ۔‘‘(صحیح مسلم )
۶۔ عیدین کی نمازوں کے ساتھ نوافل کی ادائیگی نہیں کرنی چاہیے ۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم عید الاضحی اور عید الفطر کے دن عید گاہ آئے اوردو رکعت نماز عید ادا کی ۔آپؐ نے اس سے قبل کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد میں۔ علامہ ابن قیم ؒ کہتے ہیں ’’اللہ کے نبیؐ اور صحابہ کرام عید گاہ پہنچ کر نماز عید سے پہلے اور اسکے بعد کوئی نماز نہ پڑھتے۔ (زادالمعاد) علامہ ابن حجرؒ کہتے ہیں ’’نماز سے قبل اور بعد کوئی سنت نماز ثابت نہیں (فتح الباری)
۷۔ نماز عیدالاضحی کا وقت اس وقت شروع ہو جاتا ہے،جب سورج ایک نیزے جتنا بلند ہو جائے اور زوال تک رہتا ہے ۔نماز عید الاضحی کی جلد ادائیگی کا حکم ہے۔ابن قیمؒ فرماتے ہیں ’’اللہ کے نبیﷺ نماز عید الفطر تاخیر سے ادا فرماتے جبکہ عید اضحی جلدی ادا فرماتے (زادالمعاد) امام کو نماز عید الاضحی جلد پڑھانے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ لوگ قربانی سے جلد فارغ ہو سکیں۔
۸۔ نماز عید الاضحی کا طریق ادائیگی یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ پہنچتے تو بغیر اذان و اقامت کے نماز پڑھاتے (زادالمعاد) حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں ’’مَیں نے نبی ﷺ کے ساتھ کتنی ہی بار عیدین کی نماز بغیر اذان و اقامت کے ادا کی ہے‘‘ (صحیح مسلم) نماز عید کی دو رکعتیں ہیں حضرت عمرؓ فرماتے ہیں ’’سفر کی نماز کی دو رکعتیں ہیں،نمازجمعہ کی دو رکعتیں ہیں اسی طرح عید کی نماز کی بھی دو رکعتیں ہیں یہ دو رکعتیں مکمل نماز ہیں قصر نہیں ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
احناف کے نزدیک نماز عید چھ زائد تکبیرات کے ساتھ ادا ہوگی۔پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ اور ثنا کے بعد قرات سے قبل تین زائد تکبیریں ہوں گی جبکہ دوسری رکعت میں قرات کے بعد رکوع سے قبل تین زائد تکبیریں ہونگی جبکہ نماز دوسری نمازوں کی طرح ادا ہوگی۔
۹۔ نماز عید کے بعد خطبہ سنت ہے ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں ’’مَیں نے اللہ کے رسول ﷺ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے ساتھ نماز عید پڑھی ، ان تمام حضرات نے خطبہ سے قبل نماز ادا کی(صحیح بخاری) حضرت عبداللہ بن سائبؓ فرماتے ہیں ’’میں نماز عید میں حاضر ہوا۔آپ ﷺ نے نماز کے بعد خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا: ’’ہم خطبہ دینے جا رہے ہیں جو شخص خطبہ کے لئے بیٹھنا چاہے بیٹھے اور جو جانا چاہے وہ چلاجائے۔‘‘(سنن ابی داؤد)
۱۰۔ عید کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو عید کی مبارک باد دی جائے۔محمد بن زیاد فرماتے ہیں ’’ میں ابوامامہ باہلیؓ دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ رہا ہوں، یہ حضرات نماز سے واپسی پر ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا و منک کہتے۔(بیہقی)ان کے علاوہ دوسرے کلمات سے بھی مبارک باد دی جا سکتی ہے۔ البتہ یہ کلمات خلاف شریعت نہیں ہونے چاہییں۔
۱۱۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں ’’حضور ﷺ عید کے دن عید گاہ آنے جانے کے لئے راستہ تبدیل فرماتے (صحیح بخاری) عید کی ادائیگی کے حوالے سے بعض اوقات ایسے اُمور سامنے آتے ہیں جن کو سنت نہیں کہا جا سکتا ۔ عید کے دن قبروں کی زیارت کرنااور قبرستان جانا سنت سے ثابت نہیں ہے، اسی طرح عورتوں کا بے پردہ اور بن ٹھن کر بازاروں اور پارکوں میں گھومنا پھرنا مناسب ہے اور نہ شریعت نے اس کی اجازت دی ہے اسی طرح نامحرم خواتین کے ساتھ مصافحہ کرنا پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے کسی کے سر پر لوہے کی سوئی چبھودی جائے یہ اس کے لئے بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لئے حلال نہ ہو۔‘‘عید کے دن بلا عذر شرعی نمازوں کا ترک کرنا اور کوئی نماز ادا نہ کرنا اصلاح طلب عمل ہے نمازوں کی بر وقت ادائیگی اہل ایمان کا شیوہ ہے۔غرباء اور مساکین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا اور اپنی خوشیوں میں انہیں شریک کرنا پسندیدہ عمل ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عید خوشی کا دن ہے جس میں لوگ زیب و زینت کرتے ہیں، لیکن خوشیوں کے اس دن آپے سے باہر ہو جانا اوراخلاقی حدود کو پامال کر نا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔عید۔ اللہ رب العزت کے فضل کی شکرگزاری اور اس کے اعترا ف کا نام ہے ،عید کے موقع پر غربا ء و مساکین ،یتامیٰ اور مجبور و بے کس طبقات کا خیال رکھنا سچی خوشی کا ذریعہ ہے ،ہر مسلمان کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ سب کے کام آئے ۔۔۔محبت کاذریعہ بنے ، اچھے اخلاق اختیار کرے اور اس ذریعہ سے اپنے رب کو راضی کر لے۔ احسان دانش کے الفاظ میں:
اسلام سے قبل لوگ قربانی کرتے ،قربانی کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لا کر رکھ دیتے اور خون بیت اللہ کی دیواروں پر مل دیتے ۔قرآن مجید نے بتایا کہ اللہ رب العزت کو تمہارے خون اور گوشت کی ضرورت نہیں وہ اس سے بہت بلند و برتر ہے اس کو تمہارا وہ جذبہ اور خلوص درکار ہے جو تمہارے دل میں رواں دواں اور موجزن ہے سورۃ الحج میں ارشاد ربانی ہے :’’اللہ کو نہ گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، اسے تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘ (۳۷)
گویا قربانی گوشت اور خون کا نام نہیں بلکہ یہ اللہ کے راستے میں سب کچھ قربان کر دینے کے جذبے کا نام ہے۔ سورۃ الانعام میں ہے : ’’کہیے میری نماز میرے تمام مراسم عبودیت ،میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے (۱۶۲)
مرحوم ملک نصراللہ خاں عزیز نے اس آیت کی یوں ترجمانی کی :
میری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
مَیں اسی لئے مسلماں ،مَیں اسی لئے نمازی
عید کا دن اظہار مسرت ،شکرگزاری اور خوشیوں کا دن ہے، یہ دن صرف نئے کپڑے پہننے ،اپنی شان و شوکت کے اظہار کا دن نہیں بلکہ اس کی ادائیگی کے کچھ آداب بھی ہیں،نبیؐ مہربان اس دن کو کیسے مناتے تھے ،انہوں نے امت کے لئے کیا رہنمائی چھوڑی ، عید الاضحی کے احکامات کیا ہیں، ذی الحجہ کے فوائد و برکات کو کیسے حاصل کیا جائے اور عید کیسے منائی جائے اور اس موقع پر صحیح اسلامی طریقہ (یعنی سنت) پر کیسے عمل کیا جائے۔یہ ایسے اعمال اور مسائل ہیں جن کے بارے میں ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے ۔ یہ اُمور حسب ذیل ہیں۔
۱۔ ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں کی بہت زیادہ فضیلت ہے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں : حضورؐ نے ارشاد فرمایا ’’ذی الحجہ کے ابتدائی ۱۰دنوں کے مقابلے میں کوئی اور دن ایسا نہیں جس میں نیک اعمال اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند اور محبوب ہوں‘ صحابہؓ نے پوچھا’’ کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ پسندیدہ ہیں؟ ‘‘آپؐ نے فرمایا ’’ہاں‘‘ البتہ وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں نکلے اور سب کچھ لٹا دے (صحیح بخاری) ۲۔ ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں میں تکبیرکہنا احادیث میں وارد ہے ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں میں بازار جاتے تو تکبیر کہتے اور ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی تکبیر کہتے (صحیح بخاری) اس ضمن میں فقہائے صحابہ اور ائمہ مجتہدین کا یہ مسلک ہے کہ یوم عرفہ کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن تک ،ہر نماز کے بعد تکبیر کہی جائے۔ جبکہ نماز عید کے لئے نکلتے وقت ہر شخص بلند آواز سے تکبیر کہے، یعنی ۹ ذی الحجہ کی فجر سے ۱۳ ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد تکبیر کہنی چاہیے۔
مردوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ گھروں ،بازاروں،مساجد اور راستوں میں بلند آواز سے تکبیر پکاریں اس طرح جہاں سنت پر عمل ہوگا وہیں اس کا اظہار و احیاء بھی عورتیں تنہائی میں ہوں تو بلند آواز میں اور اجنبی مردوں کے قریب یاسامنے ہوں تو دھیمے لہجے میں تکبیر کہیں ۔اصل حکم تو سب کے لئے بلند آواز میں تکبیر کہنے اور اللہ کی عظمت اور کبریائی بیان کرنے کا ہے تاکہ اللہ کی بندگی کا کھلم کھلا اعلان کیا جائے اور دوسری تمام بندگیوں کا انکار۔ یہ دراصل اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے شکر کا اظہاربھی ہے۔بلند آواز سے تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ جانا مسنون ہے لیکن لوگ آج کل اس پر کم ہی عمل کرتے نظر آتے ہیں اور یہ کوتاہی اور غفلت کے سوا کچھ نہیں، اس کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ بآواز بلند تکبیر کہنا چاہیے اور دوسروں کو بھی متوجہ کرنا چاہیے۔تکبیر کا مقصد ہر لمحے سامنے رہنا چاہیے ۔تکبیر کے الفاظ یہ ہیں:
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد
یہ وہ الفاظ ہیں جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ادا فرماتے تھے۔تکبیر کی ادائیگی انہی الفاظ میں کرنی چاہیے جن میں نبیﷺ نے کی۔ان الفاظ میں کمی بیشی کرنا کسی طرح مناسب نہیں۔
۳۔ کچھ کھائے بغیر عید گاہ جانا سنت نبوی میں سے ہے۔حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عید الفطر والے دن عید گاہ جانے سے قبل کچھ نہ کچھ تناول فرماتے جبکہ عید الاضحی والے دن کچھ نہ کھاتے، یہاں تک کہ نماز عید ادا کر لیتے (ترمذی) ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی ﷺ عید الفطر کے روز عیدگاہ کے لئے نہیں نکلتے تھے جب تک کچھ کھا نہ لیتے اور عید الاضحی کے دن کچھ نہ کھاتے، جب تک نماز عید سے فارغ ہو کر واپس گھرنہ آ جاتے۔پھرآپؐ اپنی قربانی کا گوشت تناول فرماتے۔ اگر کسی نے عید گاہ جانے سے قبل بھول چوک سے کچھ کھا لیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔
۴۔ عید کی نماز کے لئے تیار ہونا ،اچھے کپڑے پہننا ،آرائش کرنااورخوشبو لگاناسنن و آداب میں سے ہے۔اس سے بندہ اللہ کی نعمتوں کا اظہار کرتا ہے اور اللہ اس عمل کو پسند فرماتا ہے۔حضورؐ نے فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر پر اپنی نعمتوں کے اثرات دیکھنا پسند کرتا ہے (سنن ابی داؤد) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں ’’حضور عید کے روز سرخ جبہ زیب تن فرماتے۔‘‘ ’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ عیدالفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل غسل کرتے ‘‘۔دوسری روایت کے مطابق آپؓ (یعنی عبداللہ بن عمرؓ ) امام کے ساتھ فجر کی نماز پڑھتے پھر گھر واپس آتے ،غسل فرماتے ،عمدہ ترین لباس پہنتے اور سب سے اچھی خوشبو لگا کر عید گاہ تشریف لے جاتے ۔‘‘
۵۔ عیدین کی نماز واجب ہے حضور ﷺ نے لوگوں کو اس کے لئے نکلنے کو کہا، یہاں تک کہ آپؐ نے نوجوان اور پردہ نشین خواتین کو بھی عیدگاہ آنے کا حکم فرمایا۔حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی میں نوجوان ماہواری میں مبتلا اور پردہ دار خواتین کو لائیں۔ماہواری میں مبتلا خواتین نماز نہ پڑھیں البتہ دعائے خیر میں ضرور شریک ہوں۔مَیں نے حضورؐ سے پوچھا کہ اگر کسی کے پاس جلباب نہ ہو تو ؟ آپؐ نے فرمایا اس کی سہیلی اسے اپنے جلباب میں لے لے ۔‘‘(صحیح مسلم )
۶۔ عیدین کی نمازوں کے ساتھ نوافل کی ادائیگی نہیں کرنی چاہیے ۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم عید الاضحی اور عید الفطر کے دن عید گاہ آئے اوردو رکعت نماز عید ادا کی ۔آپؐ نے اس سے قبل کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد میں۔ علامہ ابن قیم ؒ کہتے ہیں ’’اللہ کے نبیؐ اور صحابہ کرام عید گاہ پہنچ کر نماز عید سے پہلے اور اسکے بعد کوئی نماز نہ پڑھتے۔ (زادالمعاد) علامہ ابن حجرؒ کہتے ہیں ’’نماز سے قبل اور بعد کوئی سنت نماز ثابت نہیں (فتح الباری)
۷۔ نماز عیدالاضحی کا وقت اس وقت شروع ہو جاتا ہے،جب سورج ایک نیزے جتنا بلند ہو جائے اور زوال تک رہتا ہے ۔نماز عید الاضحی کی جلد ادائیگی کا حکم ہے۔ابن قیمؒ فرماتے ہیں ’’اللہ کے نبیﷺ نماز عید الفطر تاخیر سے ادا فرماتے جبکہ عید اضحی جلدی ادا فرماتے (زادالمعاد) امام کو نماز عید الاضحی جلد پڑھانے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ لوگ قربانی سے جلد فارغ ہو سکیں۔
۸۔ نماز عید الاضحی کا طریق ادائیگی یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ پہنچتے تو بغیر اذان و اقامت کے نماز پڑھاتے (زادالمعاد) حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں ’’مَیں نے نبی ﷺ کے ساتھ کتنی ہی بار عیدین کی نماز بغیر اذان و اقامت کے ادا کی ہے‘‘ (صحیح مسلم) نماز عید کی دو رکعتیں ہیں حضرت عمرؓ فرماتے ہیں ’’سفر کی نماز کی دو رکعتیں ہیں،نمازجمعہ کی دو رکعتیں ہیں اسی طرح عید کی نماز کی بھی دو رکعتیں ہیں یہ دو رکعتیں مکمل نماز ہیں قصر نہیں ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
احناف کے نزدیک نماز عید چھ زائد تکبیرات کے ساتھ ادا ہوگی۔پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ اور ثنا کے بعد قرات سے قبل تین زائد تکبیریں ہوں گی جبکہ دوسری رکعت میں قرات کے بعد رکوع سے قبل تین زائد تکبیریں ہونگی جبکہ نماز دوسری نمازوں کی طرح ادا ہوگی۔
۹۔ نماز عید کے بعد خطبہ سنت ہے ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں ’’مَیں نے اللہ کے رسول ﷺ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے ساتھ نماز عید پڑھی ، ان تمام حضرات نے خطبہ سے قبل نماز ادا کی(صحیح بخاری) حضرت عبداللہ بن سائبؓ فرماتے ہیں ’’میں نماز عید میں حاضر ہوا۔آپ ﷺ نے نماز کے بعد خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا: ’’ہم خطبہ دینے جا رہے ہیں جو شخص خطبہ کے لئے بیٹھنا چاہے بیٹھے اور جو جانا چاہے وہ چلاجائے۔‘‘(سنن ابی داؤد)
۱۰۔ عید کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو عید کی مبارک باد دی جائے۔محمد بن زیاد فرماتے ہیں ’’ میں ابوامامہ باہلیؓ دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ رہا ہوں، یہ حضرات نماز سے واپسی پر ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا و منک کہتے۔(بیہقی)ان کے علاوہ دوسرے کلمات سے بھی مبارک باد دی جا سکتی ہے۔ البتہ یہ کلمات خلاف شریعت نہیں ہونے چاہییں۔
۱۱۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں ’’حضور ﷺ عید کے دن عید گاہ آنے جانے کے لئے راستہ تبدیل فرماتے (صحیح بخاری) عید کی ادائیگی کے حوالے سے بعض اوقات ایسے اُمور سامنے آتے ہیں جن کو سنت نہیں کہا جا سکتا ۔ عید کے دن قبروں کی زیارت کرنااور قبرستان جانا سنت سے ثابت نہیں ہے، اسی طرح عورتوں کا بے پردہ اور بن ٹھن کر بازاروں اور پارکوں میں گھومنا پھرنا مناسب ہے اور نہ شریعت نے اس کی اجازت دی ہے اسی طرح نامحرم خواتین کے ساتھ مصافحہ کرنا پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے کسی کے سر پر لوہے کی سوئی چبھودی جائے یہ اس کے لئے بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لئے حلال نہ ہو۔‘‘عید کے دن بلا عذر شرعی نمازوں کا ترک کرنا اور کوئی نماز ادا نہ کرنا اصلاح طلب عمل ہے نمازوں کی بر وقت ادائیگی اہل ایمان کا شیوہ ہے۔غرباء اور مساکین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا اور اپنی خوشیوں میں انہیں شریک کرنا پسندیدہ عمل ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عید خوشی کا دن ہے جس میں لوگ زیب و زینت کرتے ہیں، لیکن خوشیوں کے اس دن آپے سے باہر ہو جانا اوراخلاقی حدود کو پامال کر نا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔عید۔ اللہ رب العزت کے فضل کی شکرگزاری اور اس کے اعترا ف کا نام ہے ،عید کے موقع پر غربا ء و مساکین ،یتامیٰ اور مجبور و بے کس طبقات کا خیال رکھنا سچی خوشی کا ذریعہ ہے ،ہر مسلمان کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ سب کے کام آئے ۔۔۔محبت کاذریعہ بنے ، اچھے اخلاق اختیار کرے اور اس ذریعہ سے اپنے رب کو راضی کر لے۔ احسان دانش کے الفاظ میں:
عید قرباں ہے غم دور اں کی قربانی کرو
بے دلی کی حسرت و ارماں کی قربانی کرو
جانور قربان کرنے سے نہیں چلتاہے کام
خواہشوں کی ، شعلہ رقصاں کی قربانی کرو
یہی عید کا پیغام ہے۔
1 comments:
So very true. and i find that we are getting at distance to the spirits of Eid.
عید قرباں ہے غم دور اں کی قربانی کرو
بے دلی کی حسرت و ارماں کی قربانی کرو
Post a Comment