Wednesday, 6 November 2013

ملالہ کی کتاب: "I am Malala"

| |
ملالہ کی کتاب ’’I am malala‘‘جستہ جستہ دیکھنے کا موقع ملا۔کتاب دیکھنے کے بعد میرایہ تاثر مزید گہرا ہوا کہ اس کتاب میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ ہرگز ہرگز ملالہ کے نہیں ہو سکتے۔16سال کی ایک معصوم بچی ان خیالات کا اظہار کر ہی نہیں سکتی چاہے وہ مغرب میں پلی بڑھی ہو پھر ملالہ تو سوات کی رہنے والی ہے ۔ جہاں مذہب اور مذہبی روایات کا احترام بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔
مجھے ایسا لگا کہ ملالہ کے ساتھ ٹھیک ٹھاک ہاتھ ہو گیا ہے معصوم ملالہ ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے جن کا دین و ایمان سوائے مذہب بیزاری ، حصولِ شہرت اور مغرب کی چاکری کے اور کچھ نہیں۔جو ملالہ کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے اسلام اور پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے، مغرب کی نوکری کرنے والا یہ طبقہ ملالہ کی زبان سے ایسے نظریات اور ایسا فلسفہ پیش کر رہا ہے جو اسلام ،مسلمان اور پاکستان کے مخالفانہ نقطہ نظر کا حامل ہے۔
کتاب میں پیش کردہ خیالات جوملالہ سے منسوب کیے گئے ہیں وہ کسی طرح ملالہ کے نہیں ۔ایک چھوٹی بچی کو اپنی کتابوں،تعلیم ،اپنی دوستوں ،ہم جولیوں اور اپنے بہن بھائیوں کے سوا اورکسی سے دلچسپی ہو ہی نہیں سکتی۔یہ خیالات دراصل اس کے والد ضیاء الدین یوسف زئی اور مغربی صحافی کرسٹینالیمب کے ہیں، جنہوں نے نہایت مہارت کے ساتھ اپنے جذبات و احساسات کو ملالہ کی طرف منسوب کرنے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی کتاب میں ملالہ کے والد کا بار بارایسے تذکرہ ہوا اور حوالہ آیا ہے جیسے وہ کوئی بہت بڑی علمی ،فکری وسیاسی اور مذہبی شخصیت ہومگر عملاً ایسا نہیں ،کتاب میں کسی خاص مقصد کے تحت ایسے موضوعات اور مواد ڈال دیے گئے ہیں جو ہمیشہ سے مسلمانوں اور اسلام کی دشمن قوتوں کے درمیان وجہ نزاع رہے ہیں۔ کتاب میں سے چند ایک اقتباس مختصر مختصرتبصروں کے ساتھ پیش خدمت ہے۔
۔ ملعون سلمان رشدی کی کتاب’’ The Stanic Verses ‘‘کے حق میں بات کی گئی ہے اور لکھاہے : ’’میرے والد نے بھی اس کتاب کومخالف اسلام پایا لیکن وہ آزادی اظہار رائے کے حامی ہیں‘‘مزید لکھا کہ ’’کیا اسلام ایسا کمزور مذہب ہے جو اپنے خلاف لکھی گئی کتاب کو برداشت نہیں کر سکتا۔ میرا اسلام ایسا نہیں ہے۔‘‘پاکستان میں اس کتاب کے خلاف مضامین ایک مولوی نے لکھنے شروع کیے جو ایجنسیوں کے بہت نزدیک تھا۔(صفحہ۳۰)ایک دس سال پرانی کتاب کا یہ اقتباس سوائے مسلمانوں کی دل آزاری کے کیا معنی رکھتا ہے، کتاب میں اس پیراگراف کا اضافہ کن مقاصد کے تحت کیا گیا ہے یہ سمجھنا مشکل نہیں۔
۔ کتاب میں مختلف مقامات پر حضرت محمد ﷺ کا حوالہ آیا ہے مگر کہیں بھی انگریزی میں (PBUH) نہیں لکھا گیااور نہ اُردوزبان میں صلی اللہ علیہ وسلم۔
۔ اسلامی قوانین اورجنرل ضیاء الحق کے بارے میں نہایت منفی ریمارکس دیے گئے ہیں۔لکھاہے : ’’عورتوں کی زندگی ضیاء الحق کے دور میں محدود ہو گئی،لڑکیوں کو ہاکی کھیلتے وقت نیکر(Shorts)پہننے سے کیوں روکا گیا اور انہیں پاجامہ پہننے پر کیوں مجبور کیا گیا (صفحہ ۲۴) مزید لکھا ضیاء دور میں کئی مدارس کھلے۔تمام اسکولوں میں دینیات کی جگہ اسلامیات (اسلامک سٹڈیز) کا مضمون پڑھایا جانے لگا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ مزید لکھا کہ ’’ہماری درسی کتب میں پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ شاید یہ 1947سے بھی پہلے قائم تھا۔ان درسی کتابوں میں یہود و ہنود کی مذمت کی گئی ہے ۔‘‘ مزید لکھا کہ جنر ل ضیاء کے دور کی یہ کتب جو بھی پڑھے گا وہ یہ سوچ سکتا ہے کہ ہم نے تین جنگیں جیتی ہیں ۔ حالانکہ ہم نے اپنے عظیم دشمن بھارت کے خلاف جنگیں لڑیں اور ہاری ہیں۔(صفحہ ۲۵) اس طرح پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بارے میں ناپسندیدہ ریمارکس کے ساتھ لکھا۔۔۔’’آج کل کے حالات میں ہم متحدہ ہندوستان میں رہتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ‘‘
۔ ملالہ نے اپنا ہیرو سکندر اعظم کو قرار دیا ہے (صفحہ 20)سکندر اعظم کو مغرب ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے اور ملالہ کے اپنے والد کے قائم کردہ سکول میں یہ نصاب پڑھایا جاتا رہا ہے جہاں سکندراعظم کو بطور ہیرو پیش کیا گیا ہے۔
۔ ایک جگہ افغان جہاد اور جنرل ضیاء بارے لکھاہے ’’ضیاء دور میں ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے جہاد ہمارے مذہب کا پانچواں ستون ہے۔‘‘جو بچی ابھی 16سال کی ہے ضیاء دور میں اس کی عمر کیا ہوگی؟ جس پر وہ تبصرہ کر رہی ہے۔
۔ ایک اور جگہ لکھتی ہیں’’پچاسویں یوم آزادی (14؍اگست 1997)کے موقع پر ملک بھر میں یوم آزادی جوش و خروش سے منانے کا اہتمام کیا گیا ۔ ان دنوں ریاست سوات کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو گیا تھا۔ ان دنوں میں میرے والد صاحب نے بطور احتجاج بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھی تھیں اور کہا کسی بات کا جشن نہیں منایا جائے گا، جس پر وہ گرفتار بھی ہوئے۔‘‘(صفحہ ۴۵)
۔ پردے اور برقعے کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا ہے:۔ ’’گرمیوں میں ایک کیتلی کی طرح لگتا ہے۔‘‘(صفحہ ۵۱) 
۔ ملا عمر کا مضحکہ اڑایا اور \"One eyed mullah\"قرار دے کر اپنے خبث باطن کا اظہار کیا ہے۔
۔ مزید لکھا ہے کہ’’ جناح شیعہ تھے‘‘ ، کتاب میں ان کو قائد اعظم کی بجائے صرف جناح لکھا ہے۔
۔ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں لکھا ’’ہر کوئی سمجھتا ہے کہ مشرف ڈبل کراس کر رہے تھے امریکہ سے پیسے لیتے اور جہادی لوگوں کی مدد بھی کرتے آئی ایس آئی انہیں اسٹرٹیجک اثاثہ سمجھتی تھی‘‘(صفحہ ۷۱) جس فوج نے ملالہ کو سوات سے نکالا اس کے خلاف بات کرتے ہوئے اسے ذرا خیال نہ آیا کہ مَیں کیا لکھ رہی ہوں۔
۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ’متحدہ مجلس عمل‘ کے بارے میں لکھا۔ہمارے صوبے میں انتخابات کے نتیجے میں ملا حکومت آ گئی‘‘۔ملالہ نے ایم ایم اے کو ’’ملا ملٹری الائنس ‘‘ کا نام دیا۔
۔ لال مسجد کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’’جس وقت سوات میں طالبان ابھر رہے تھے لال مسجد مدرسے کی خواتین اور طالبات نے اسلام آباد کی گلیوں میں لوگوں کو خوفزدہ کرنا شروع کر دیا۔وہ ایسے گھروں پر چھاپے مارنے لگیں جنہیں وہ مساج سنٹر بتاتی تھیں انہوں نے خواتین کو طوائفیں قرار دے کر اغوا کرنا شروع کر دیا سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کے ڈھیر بنا کر انہیں آگ لگائی جب طالبان کو مناسب لگتا ہے تو خواتین کو آواز بھی مل جاتی ہے اور لوگوں کو نظر بھی آنے لگتی ہے (صفحہ ۱۰۵) 
۔ ۲مئی کو رونما ہونے والے واقعہ اور اسامہ بن لادن کے بارے میں لکھاہے۔ ’’میرے والد کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ فوج اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کے متعلق غافل رہ سکتی ہے ‘‘(صفحہ ۱۷۶) مزید لکھتی ہے کہ ’’میرے والد نے اسے شرمناک دن قرار دیا، ایک بدنام زمانہ دہشت گرد کئی سالوں تک پاکستان میں کیسے چھپ سکتا ہے دیگر لوگ بھی یہی سوال کر رہے تھے‘‘ مزید لکھا’’آپ سمجھ سکتے ہیں کوئی ایسا کیسے سوچے گا کہ ہماری انٹیلی جنس سروس کو بن لادن کے ٹھکانے کا علم نہ ہوگا۔ آئی ایس آئی ایک بہت بڑی تنظیم ہے جس کے ایجنٹ ہر مقام پر موجود ہیں ۔وہ شخص اسلام آباد سے 60میل دور اتنا طویل عرصہ کیسے رہ سکتا ہے؟ ممکن ہے چھپنے کے لئے کوئی بہتر جگہ ہو ، وہ 2005کے زلزلے کے وقت سے وہاں رہائش پذیر تھا ۔اس کے دوبچے ایبٹ آباد ہسپتال میں پیدا ہوئے ، وہ ۹سال سے پاکستان میں موجود تھا‘‘ ۔
یہ ہیں ملالہ کی کتاب کے چند اقتباسات، ان اقتباسات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ اس کتاب میں ملالہ کے نہیں بلکہ زیادہ تر اس کے والد کے خیالات نے جگہ پائی ہے یا پھر کرسٹینا لیمب کی قلم کاری نے، ایک ۱۶سال کی بچی وہ سب کچھ کہہ رہی ہے جو پورا مغرب کہتا ہے ۔ اسے اسلام،مسلمانوں اور پاکستان میں وہی خرابیاں نظر آتی ہیں جو اہل مغرب کو نظر آتی ہیں۔اسلام اور مغرب کے درمیان یہی موضوعات تو وجہ نزاع اور جھگڑے کی بنیاد ہیں۔اللہ اور رسولؐ کے منکر، آزادئ رائے کے پرچارک ، انبیاء کی توہین کرنے والے ، قانون توہین رسالت کے خلاف زہر اگلنے اور قادیانیوں کو غیر مسلم نہ ماننے والے مغرب نے دراصل ملالہ کا نام استعمال کیا ہے۔ اسلامی قوانین ، اسلامی شریعت ،اسلامی اقدار وروایات کا مذاق اڑایا ہے ۔ مغرب اور ملالہ کے حمایت کنندگان میں بھی وہ لوگ پیش پیش ہیں جو ایک زمانے میں سرخ سویرے کے نعرے لگاتے نہ تھکتے تھے اسلام کے نام سے شرمندہ شرمندہ اور مغرب سے مرعوب یہ طبقہ آج کل مغرب اور امریکہ کے گن گاتے نہیں تھکتا کہ اس کا سارا دار و مدار مغرب کے فنڈ ز سے چلنے والی NGO,s پر ہے ،جس میں انہوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ اس ضمن میں میڈیا کا کردار بھی ایسا قابل تعریف نہیں رہا۔ جس میڈیا نے ملالہ کو ہیرو بنایا۔اس پر پروگرامات کئے یہ متنازعہ کتاب سامنے آئی تو میڈیا کا فرض تھا کہ وہ حقائق سامنے لاتا، سچ تک پہنچنے میں قوم کومدد فراہم کرتا مگر میڈیا پر خاموشی چھا گئی جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔حقیقت یہ ہے کہ ملالہ کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے اور اس کے لئے کلمہ خیر کہنے والے بھی اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد مایوس ہوئے ۔ ضرورت ہے کہ ملالہ کو ایسے لوگوں سے بچایا جائے جو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے ۔قوم کی معصوم بچی نام نہاد دانشوروں، خرکاروں اور ٹھگوں کے ٹولے کے چنگل میں پھنس گئی ہے ۔ اب قوم کا فرض ہے کہ وہ اسے ان لوگوں سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرے ۔جو اسلام ، مسلمان اور پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں شاید ملالہ اور اس کا خاندان بھی اس کا ادراک کرسکے۔

2 comments:

ماشااللہ اچھی کاوش ہے

It appears that this book is result of combined effort of Malala's father and Christina Lamb. Malala'sname is used only for title purpose in order to seek international acceptance for it

Post a Comment