Thursday 9 January 2014

دیوارِ برہمن اور تقسیم ِکشمیر

| |
بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس (BSF) نے جموں ،سیالکوٹ ورکنگ باونڈری پر 179 کلو میٹر لمبی اور 10 میٹر اونچی لوہے اور کنکریٹ پر مشتمل مضبوط اور ناقابل عبور دیوار کےمنصوبے پر عملدرآمدکا آغازکردیاہے۔ جبکہ اس سے قبل اس علاقے میں 12فٹ اونچی تار لگانے اور فلڈ لائٹس نصب کرنے کا کام مکمل ہوچکا ہے۔ اس منصوبے سے 118 سرحدی دیہات مزید متاثر ہورہے ہیں۔جن کے باسی پریشانی ، بے چینی اور اضطراب کی حالت میں مبتلا ہیں۔ اس دیوار پر کام کے آغاز سے قبل بھارتی حکام نےاسرائیل کا دورہ کرکے اُن کے ( حماس کے خلاف تجربات) سے فائدہ اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔ دیوار کی وجہ جواز یہ بنائی گئی ہے کہ مجاہدین خاردار تارکو کاٹ کر بھارت میں داخل ہوجاتے ہیں اور اس کے بغیر مجاہدین کو روکنا ممکن نہیں۔ بھارتی مسلح افواج کشمیری مجاہدین سے کس درجہ خائف ہیں اس کا اندازہ اس سے بخوبی ہوجاتا ہے۔

جموں ،سیالکوٹ ورکنگ باونڈری پر دیوار بنانے کا منصوبہ بھارتی وزارت ِداخلہ کی فنڈنگ اور BSF کی نگرانی میں تکمیل پائے گا۔ جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی حکومت سے NOC حاصل کیا جائے گا، اور فوجی مقاصد کے لئے 24 ممبران اسمبلی کی حمایت سےیہ تحریک ریاستی اسمبلی میں پیش کرکے منظوری حاصل کرنے کا راستہ ہموار کیا جارہا ہے، اس ضمن میں دباؤ اور لالچ کےہتھیا ربھی آزمائے جا رہے ہیں۔
اس طرح کے دفاعی منصوبے بین الاقوامی اور ریاستی قوانین کے منافی اور انسانی حقوق سے متصادم ہیں، اس کے ذریعے سے بھارت کشمیریوں سے زمین ہتھیا کر غیر ریاستی باشندوں میں تقسیم کر کےمقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے عزائم پر عمل پیر ا ہے۔

یہ دیوار ، دیوار برلن سے زیادہ اونچی بلند اور وسیع ہے۔ بھارت کے اس مزموم منصوبے کے خلاف مقبوضہ جموں وکشمیر میں تحریک اپنے عروج پر ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ بھارت ابھی تک ریاستی اسمبلی سے NOC حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بھارت نے سیز فائر سے فائدہ اٹھا کر خاردار تار لگانے کا منصوبہ کافی حد تک مکمل کر لیا تھا۔ یہ خاردار تار سیز فائر لائن سے عام طور پر 2 سے 5 کلومیٹر اندر تک نصب کی گئی ہے، کئی مقامات پر یہ فاصلہ 10 کلومیٹرتک چلا جاتا ہے۔ جہاں جہاں آبادیاں آتی ہیں وہاں پر گیٹ بنائے گئے ہیں جن کے کھلنے اور بند کرنے کے اوقات مقرر ہیں جس سے مقامی آبادیاں شدید مشکل اور تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں۔

پاکستان ، پاکستانی حکومت، آزاد جموں وکشمیر حکومت اور سیاسی جماعتوں کا جو  اس سارے معاملے میں رویہ اور کردار ہے وہ بھارت کے عزائم کے سامنے "خاموشی " کا ہے۔ جس سے بھارت کو اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے میں مدد مل رہی ہے۔ حکومت پاکستان کو کشمیر کے سلسلے میں دو ٹوک اور واضح پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ کیونکہ کشمیر پراصولی موقف سے پیچھے ہٹنے کے تاثر سے کشمیریوںکی جدوجہد کونقصان پہنچنے کےساتھ ساتھ، کشمیرکاز اور پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوگا۔ اس ضمن میں حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کو بین الاقوامی عدالت ِانصاف کا دروازہ کٹھکٹھانے سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر ہوگا۔ اور بین الاقوامی عدالت کے پاکستان کے حق میں فیصلے سے ہمارے موقف کو تقویت ملے گی۔ اور بھارت کو پسپا ہونا پڑے گا۔ کشمیریوں کا احتجاج اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس کے لئے عالمی ماہرین قانون کی خدمات حاصل کرکے پیش کی جاسکتی ہیں۔

2 comments:

kashmir issue pr ye aik achi aor umda kawish he,ahl e kashmir ka muqadma paish karne pr ham aap k shukar guzar hen.
janab Ghazi sb Altaf Hussain ki taraf se anay wale Sindh 1 aor Sindh 2 k bian k hawale se b rehnumai farmaye kahin ye Sindh aur Mulk ki taqsim k hawale se sazish to nhe.....

Post a Comment