بنگلہ
دیش میں 5 جنوری 2014کو ہونے والے انتخابات کو کسی طرح بھی منصفانہ، غیر
جانبدارانہ اور آزادانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے انتخابات جن میں اپوزیشن کی 21
جماعتوں نے بائیکاٹ کیا ہو، اور صرف حسینہ واجد کی حکومتی پارٹی ہی انتخابات میں
حصہ لینے کی مجاز ہو، ان انتخابات کو فراڈ تو کہا جا سکتا ہے منصفانہ انتخابات
نہیں۔
ان
انتخابات کو مانیٹر کرنے کے لئے امریکہ، برطانیہ، دولت مشترکہ اور یورپی یونین نے
اپنے مبصرین بھیجنے سے انکار کردیا۔ حسینہ حکومت کی بدنیتی اس سے واضح ہوتی ہے کہ
اس نے بنگلہ دیشی آئین سے انتخابات کروانے کے لئے نگران حکومت کے قیام کی شق پہلے ہی ختم کر دی۔ جماعت اسلامی
کے رہنما ملا عبدالقادرشہید کو 1971میں افواج پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں نام
نہاد انٹرنیشل کرائم ٹربیونل کے عمر قید کے فیصلے کوکنگرو کورٹس کے ذریعے سزائے
موت میں تبدیل کروا کے پھانسی پر لٹکا دیا۔ اور سابق وزیراعظم اور موجودہ اپوزیشن
لیڈر خالدہ ضیاء کو "مارچ فار ڈیموکریسی" میں حصہ لینے سے روکنے کے لئے
گھر پر نظر بند کردیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی دھاندلی اور فراڈ کے باعث کاغذات
نامزدگی داخل نہیں کروائے۔جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے 154
پر حکومتی جماعت کے امیدوار بلا مقابلہ کامیاب قرار پا گئے۔ لیکن حسینہ واجد کی یہ
فتح نہیں شکست ہے۔
بھارتی
سرپرستی میں ہونے والے یہ انتخابات خون ریزی پر مبنی تھے، جن میں سینکڑوں پولنگ
اسٹیشنز جلا دیے گئے، 20 سے زائد افرادجان سے ہاتھ دھو بیٹھے، سارا دن مظاہرے ہوتے
رہے، پولیس اور سیکورٹی فورسز کی طرف سے احتجاج کرنے والے عوام پر ظالمانہ تشدد
اور توڑ پھوڑ کے مناظر جابجا نظر آتے رہے۔
بنگلہ
دیش کے یہ 9 ویں انتخابات تھے جس میں حسینہ واجد نے یکطرفہ طور پر حصہ لے کر بھاری
اکثریت حاصل کرلی، ابتدائی نتائج کے مطابق عوامی لیگ نے 300 کے ایوان میں 232
نشستوں پر کامیابی حاصل کی لی ہے۔جبکہ حکومت سازی کے لئے آئینی طور پر 151 نشستوں
کی ضرورت تھی۔
ان
انتخابات میں ٹرن آوٹ تاریخ کی کم ترین سظح پر رہا۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ ٹرن
آوٹ ٪20 رہا ہے لیکن باخبر حلقے جانتے ہیں کہ 16 کروڑ آبادی کے ملک مٰیں جہاں 8
کروڑ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز ہوں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان
اتخابات کی کچھ ساکھ نہیں ہے اور ان کو جعلی انتخابات قرار دیا جا رہا ہے۔ حسینہ
واجد حقیقی عوامی مینڈیٹ سے محروم ہے، اس لئے دوبارہ انتخابات کے امکان کو مسترد
نہیں کیا جاسکتا۔
حسینہ
واجد ، بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہے، جن کا پورا خاندان بغاوت کی نذر
ہوچکا ہے اب تیسری بار وزیراعظم بنی ہیں لیکن اس کے رویہ سے ایسا کچھ نہیں لگتا کہ
انہوں نے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے۔حسینہ واجد کی غیر مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو
رہا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ٹرن آوٹ ٪70 تھا جو اب کم ہو کر ٪20 رہ گیا ہے۔
بنگلہ
دیش اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، اور شدید سیاسی عدم استحکام،
معاشی ابتری، غربت، بے روزگاری، کرپشن، انسانی حقوق کی سنگین پامالی، تشدد، فرقہ
واریت، ہڑتالوں، مظاہروں اور توڑ پھوڑ کا شکار نظر آتا ہے۔ صنعتی حادثے ملک کا
مقدر بن کر رہ گئے ہیں۔ گزشتہ ماہ ڈھاکہ میں 8 منزلہ فیکٹری کی عمارت میں آگ لگنے
سے 1100 مزدور جاں بحق ہوئے، اس طرح کے پے در پے واقعات کے باعث امریکہ اور یورپ
نے بنگلہ دیش ایکسپورٹ کو مزدورں کی حفاطت اور اجرت کے میعار کے ساتھ مشروط کردیا
ہے جس سے سالانہ 20 بلین ڈالر کی ایکسپورٹس پر مبنی ذرمبادلہ خطرے سے دوچار ہے۔
اس
کا ایک اہم پہلو بنگلہ دیش حکومت کا پاکستان بارے منفی رویہ ہے کچھ سالوں سے
پاکستان صنعت کاروں نے بجلی کے بحران کے باعث بنگلہ دیش میں اپنی صنعت کو منتقل
کیا تاکہ سستی اور وافر بجلی اور کم اجرت پر دستیاب مزدورں سے فائدہ اٹھایا جا سکے
مگر حسینہ حکومت کے پاکستان کے خلاف حالیہ بیانات، اقدامات اور مشتعل مظاہرین کی
جانب سے پاکستانی سفارت خانے کے گھیراو نے پاکستانی صنعتکاورں میں عدم تحفظ اور
خطرے کی گھنٹیا ں بجا دی ہیں جبکہ ادھر پاکستان کو یورپی یونین نے GSP پلس کا درجہ دے دیا ہے جس پاکستانی
ایکسپورٹس بنگلہ دیشی ایکسپورٹس کو مات دے دیں گی۔
بنگلہ
دیش کا مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔عوامی اور اخلاقی حمایت سے محروم حسینہ
حکومت ان حالات کا کب تک مقابلہ کر پاتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر
حسینہ حکومت نے بھارت کی محبت میں ملک اور قوم کا جو نقصان کر دیا ہے اس کاجلد
ازالہ ہوتا نظر نہیں آتا۔
1 comments:
well written
Post a Comment