ربیع الاول کا سورج طلوع ہوتا ہے تو ہر مسلمان حضورؐ کے ساتھ محبت اور عشق کی کیفیت سے سرشار نظر آتا ہے ۔ربیع الاول میں ہی حضورؐکی ولادت با سعادت ہوئی اور اس ماہ مبارک میں ہی آپ دنیا سے رخصت ہوئے۔آپؐ انسانیت کے لئے سراپا شفقت و رحمت اور خیر تھے۔آپؐ تمام انسانیت کے رہنما ہیں ۔آپؐ کی نبوت اور تعلیمات عالمگیر درجہ رکھتی ہیں جو روئے زمین کے تمام انسانوں،تمام علاقوں،تمام رنگ و نسل کے انسان کیلئے یکساں اہم اور فضیلت کا باعث ہیں۔نبیؐ مہربان کی زندگی امت کے لئے نمونہ عمل (Model) کی حیثیت رکھتی ہے۔آپؐ نے اپنی زندگی کے ہر ہر پہلو سے امت کو تعلیم دی ۔قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے نبیؐ کی زندگی میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ حضورؐ نے امت کو سادہ زندگی گزارنے، عیش کوشی اور اونچے معیار زندگی سے بچنے کی تلقین کی۔اور آپ کا یہ عمل اس وقت بھی رہا جب کفر و اسلام کے درمیان کشمش برپا تھی اور اس وقت بھی جب آپؐ ریاست مدینہ کے والی تھے، آپؐ نے سادہ اور فقرکی زندگی شعوری طور پراور رضاکارانہ اختیار کی۔اورزندگی کے آخر تک اس پر قائم رہے حالانکہ آپؐ چاہتے تو اعلیٰ سے اعلی نعمت حاصل کر کے اس سے استفادہ کر سکتے تھے لیکن آپؐ نے سادہ زندگی کو ترجیح دی اور اسی کو امت کے لئے پسند کیا۔آپ کا یہ عمل اللہ کی محبت ،رضا اور خوشنودی ،فکر آخرت کا غماز ،جہنم سے خوف اور جنت کے شوق اور آرزو ،اور اپنے رب کے ساتھ ملاقات کی تمنا کو اجاگر کرتا نظر آتا ہے۔آپ کی سیرت امت کیلئے رہنمائی کا ذریعہ بھی ہے اورامت کی زندگی کابھی۔
آپؐ نے معیار زندگی کے حوالے سے امت کو کیا رہنمائی دی، اس بارے میں نبی مہربانی کا اسوہ اور تعلیمات کیا رہیں ؟ حضورؐ کی زندگی فقر اور استغنا کی زندگی تھی ،اقبال ؒ نے حضورؐ کی تعلیمات کی روشنی میں ہی اپنے بیٹے کو یہ تلقین کی تھی کہ:۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔’’نبوت کے بعد سے زندگی بھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میدہ کا آٹا نہیں دیکھا ۔نیزمزید فرماتے ہیں کہ ’’جب سے آپؐ کو اللہ نے نبی بنایا اس وقت سے لے کر وصال تک چھنا ہوا آٹا نہیں دیکھا۔ پوچھا گیا کہ بغیر چھنے ہوئے آٹے کو آپ لوگ کیسے کھاتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا ’’ہم جو کو پیستے تھے اور آٹے کو منہ سے پھونک مارتے تھے کچھ بھوسی اڑ جاتی اور بقیہ کی روٹی پکاتے اور کھا لیتے۔‘‘ (بخاری)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عمر بن خطابؓ کو یہ بات یاد آئی کہ آج لوگوں کے پاس کتنی دولت اور جائیداد ہے،وہ فرماتے ہیں کہ’’ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ پورا دن بھوک سے تڑپتے ہوئے گزر جاتا ، ردی کھجور بھی اس مقدار میں نہیں پاتے کہ اس سے اپنی بھوک مٹا لیتے‘‘۔ (مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں پر کئی مہینے اس حال میں گزر جاتے کہ ان میں سے کسی کے یہاں چراغ نہ جلتا اور نہ آگ جلانے کی نوبت آتی۔ اگر زیتون کا تیل مل جاتا تو سر پر لگا لیتے ‘‘ (ترغیب و ترہیب جلد چہارم)
حضرت شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں،مَیں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی تاکہ کچھ مال حاصل کروں لیکن آپ ؐ نے معذرت کر دی (اس پر میرا دل مطمئن نہیں ہوا اور مَیں نے آپؐ پر خفگی کا اظہار کیا) اور جب نماز با جماعت کا وقت قریب آیا تو مَیں نکلی اور اپنی بیٹی کے یہاں گئی تو اس کے شوہر شرجیل ابن حسنہ کو گھر میں پایا ۔مَیں نے کہا ،’’نماز کا وقت آ گیا اور تم ابھی گھر میں ہو۔ اور مَیں ان پر خفا ہوتی رہی۔
انہوں نے کہ ’’خالہ! آپ مجھے ملامت نہ کریں۔ میرے پاس ایک ہی کپڑا تھا وہ مجھ سے نبئاکرم ﷺ نے اپنے استعمال کے لئے بطورعاریت(ادھار) لے لیاہے ( میرے پاس دوسرا کپڑا نہیں ہے اس لئے مَیں مسجد نہیں گیا) مَیں نے کہا ’’میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، مَیں آج آپﷺ پرخواہ مخواہ خفا ہوتی رہی اور آپؐ کی اس حالت کا مجھ کو علم ہی نہیں تھا‘‘۔شرجیل کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک ہی پھٹا ہوا کُرتا تھا جس میں ہم نے پیوند لگا رکھا تھا۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ طبرانی و بیہقی)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺایک چٹائی پر سوئے ہوئے تھے جب آپؐ اٹھے تو چٹائی کے نشانات آپؐ کے پہلو میں دیکھے تو ہم نے کہا : ’’اے اللہ کے رسول ﷺ اگر ہم آپ کے لئے کوئی گدّا بنا دیں تو کیسا رہے گا ؟ آپؐ نے فرمایا ’’مجھے دنیا سے کیا مطلب ؟ مَیں تو دنیا میں اس مسافر کی طرح ہوں جس نے کسی درخت کے سائے میں تھوڑی دیر تک آرام کیا پھر درخت اور اسکے سائے کو چھوڑ کر سفر پر روانہ ہو گیا۔ (ترمذی)
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں ’’نبی ﷺ نے ایک پھٹے پرانے کجاوے اور پرانی چادر میں حج کیا، اس چادر کی قیمت چار درہم رہی ہوگی یا چار درہم کے برابر بھی نہیں رہی ہوگی۔‘‘ (ترمذی )
حضرت عمرو بن حارثؓ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی درہم چھوڑا نہ کوئی دینار، نہ کوئی غلام نہ باندی اور نہ کوئی دوسری چیز ، سوائے اس مادہ خچر کے جس کا رنگ سفید تھا جس پر آپ ﷺ سواری کرتے تھے اور بجز اپنے ہتھیار اور کچھ زمین کے اور اسے بھی آپؐ نے خدا کی راہ میں صدقہ کر دیا۔ (بخاری)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے دعوت دین کی راہ میں اتنی اذیتیں دی گئیں جو کسی دوسرے کو نہیں دی گئیں۔تیس دن اور تیس راتیں ایسی گزریں کہ میرے اور میرے رفیقِ سفر بلالؓ کے پاس کوئی بھی کھانے کی چیز نہ تھی سوائے اس تھوڑی سی چیز کے جس کو بلالؓ اپنی بغل میں دبائے ہوئے تھے‘‘ (ترمذی)
کعب بن عجرہؓ فرماتے ہیں، مَیں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپؐ کا چہرہ اترا ہوا ہے۔مَیں نے عرض کیا ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان۔آپ کا چہرہ کیوں اترا ہوا ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے بتایا کہ ’’تیں دن ہو گئے پیٹ میں ایک دانہ نہیں گیا ۔‘‘
کعب بن عجرہ کہتے ہیں ’’مَیں گیا تاکہ آپ ﷺ کے لئے کچھ انتظام کروں۔دیکھا کہ ایک یہودی اپنے اپنے اونٹوں کو ڈول سے پانی بھر بھر کر پلا رہا ہے۔ مَیں اس سے ہر ڈول پر ای کھجور کا معاملہ طے کرکے ڈول بھرنے لگا۔اس طرح مَیں نے بہت سی کھجوریں اکٹھی کیں۔انہیں لے کرحضور ﷺ کے پاس آیا۔آپ ﷺ نے پوچھا ’’یہ تمہیں کہاں سے ملیں‘‘
تو مَیں نے واقعہ بتایا۔ تب نبی ﷺ نے پوچھا ’’اے کعب کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟‘‘ مَیں نے ’’ہاں آپ پر میرا باپ قربان ہو‘‘۔آپ ﷺ نے فرمایا ’’جو لوگ مجھے محبوب بناتے ہیں ان کی طرف فقروفاقہ اس سے زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے جتنا تیز سیلابی پانی ڈھلان کی طرف بڑھتا ہے۔اے کعب ! تمہیں بھی امتحان سے دو چار ہونا پڑے گا تو فقروفاقہ اور معاشی تنگی کا مقابلہ کرنے کے لئے ہتھیار فراہم کر لو۔‘‘ (ترغیب و ترہیب بحوالہ طبرانی)
امت کے لئے حضورؐ کا اسوہ بے لوثی، بے نیازی اور فقر کا ہے ۔آپ کی زندگی فقر کی زندگی تھی ۔تمام زندگی یہی فقر آپ کا طرہ امتیاز رہا۔اور یہ سب اپنے رب کی رضااور خوشنودی کے لئے تھا۔حضور ﷺتاریخ انسانی کے ماتھے کا جھومراور شرف ہیں ۔آپ نے تاریخ انسانی کو اپنے کردار سے روشن اور منور کیا۔ایسے تابندہ اور روشن کردار کو اختیار کرکے امت مسلمہ آج بھی کامیابیاں سمیٹ سکتی ہے اور عروج سے ہمکنار ہو سکتی ہے اور حضورؐ کا اسوہ حسنہ امت کی بگڑی بنا سکتا ہے۔ کاش امت حضورؐ کے اسوہ حسنہ کر حرزجاں بنا لے۔
آپؐ نے معیار زندگی کے حوالے سے امت کو کیا رہنمائی دی، اس بارے میں نبی مہربانی کا اسوہ اور تعلیمات کیا رہیں ؟ حضورؐ کی زندگی فقر اور استغنا کی زندگی تھی ،اقبال ؒ نے حضورؐ کی تعلیمات کی روشنی میں ہی اپنے بیٹے کو یہ تلقین کی تھی کہ:۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔’’نبوت کے بعد سے زندگی بھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میدہ کا آٹا نہیں دیکھا ۔نیزمزید فرماتے ہیں کہ ’’جب سے آپؐ کو اللہ نے نبی بنایا اس وقت سے لے کر وصال تک چھنا ہوا آٹا نہیں دیکھا۔ پوچھا گیا کہ بغیر چھنے ہوئے آٹے کو آپ لوگ کیسے کھاتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا ’’ہم جو کو پیستے تھے اور آٹے کو منہ سے پھونک مارتے تھے کچھ بھوسی اڑ جاتی اور بقیہ کی روٹی پکاتے اور کھا لیتے۔‘‘ (بخاری)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عمر بن خطابؓ کو یہ بات یاد آئی کہ آج لوگوں کے پاس کتنی دولت اور جائیداد ہے،وہ فرماتے ہیں کہ’’ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ پورا دن بھوک سے تڑپتے ہوئے گزر جاتا ، ردی کھجور بھی اس مقدار میں نہیں پاتے کہ اس سے اپنی بھوک مٹا لیتے‘‘۔ (مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں پر کئی مہینے اس حال میں گزر جاتے کہ ان میں سے کسی کے یہاں چراغ نہ جلتا اور نہ آگ جلانے کی نوبت آتی۔ اگر زیتون کا تیل مل جاتا تو سر پر لگا لیتے ‘‘ (ترغیب و ترہیب جلد چہارم)
حضرت شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں،مَیں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی تاکہ کچھ مال حاصل کروں لیکن آپ ؐ نے معذرت کر دی (اس پر میرا دل مطمئن نہیں ہوا اور مَیں نے آپؐ پر خفگی کا اظہار کیا) اور جب نماز با جماعت کا وقت قریب آیا تو مَیں نکلی اور اپنی بیٹی کے یہاں گئی تو اس کے شوہر شرجیل ابن حسنہ کو گھر میں پایا ۔مَیں نے کہا ،’’نماز کا وقت آ گیا اور تم ابھی گھر میں ہو۔ اور مَیں ان پر خفا ہوتی رہی۔
انہوں نے کہ ’’خالہ! آپ مجھے ملامت نہ کریں۔ میرے پاس ایک ہی کپڑا تھا وہ مجھ سے نبئاکرم ﷺ نے اپنے استعمال کے لئے بطورعاریت(ادھار) لے لیاہے ( میرے پاس دوسرا کپڑا نہیں ہے اس لئے مَیں مسجد نہیں گیا) مَیں نے کہا ’’میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، مَیں آج آپﷺ پرخواہ مخواہ خفا ہوتی رہی اور آپؐ کی اس حالت کا مجھ کو علم ہی نہیں تھا‘‘۔شرجیل کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک ہی پھٹا ہوا کُرتا تھا جس میں ہم نے پیوند لگا رکھا تھا۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ طبرانی و بیہقی)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺایک چٹائی پر سوئے ہوئے تھے جب آپؐ اٹھے تو چٹائی کے نشانات آپؐ کے پہلو میں دیکھے تو ہم نے کہا : ’’اے اللہ کے رسول ﷺ اگر ہم آپ کے لئے کوئی گدّا بنا دیں تو کیسا رہے گا ؟ آپؐ نے فرمایا ’’مجھے دنیا سے کیا مطلب ؟ مَیں تو دنیا میں اس مسافر کی طرح ہوں جس نے کسی درخت کے سائے میں تھوڑی دیر تک آرام کیا پھر درخت اور اسکے سائے کو چھوڑ کر سفر پر روانہ ہو گیا۔ (ترمذی)
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں ’’نبی ﷺ نے ایک پھٹے پرانے کجاوے اور پرانی چادر میں حج کیا، اس چادر کی قیمت چار درہم رہی ہوگی یا چار درہم کے برابر بھی نہیں رہی ہوگی۔‘‘ (ترمذی )
حضرت عمرو بن حارثؓ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی درہم چھوڑا نہ کوئی دینار، نہ کوئی غلام نہ باندی اور نہ کوئی دوسری چیز ، سوائے اس مادہ خچر کے جس کا رنگ سفید تھا جس پر آپ ﷺ سواری کرتے تھے اور بجز اپنے ہتھیار اور کچھ زمین کے اور اسے بھی آپؐ نے خدا کی راہ میں صدقہ کر دیا۔ (بخاری)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے دعوت دین کی راہ میں اتنی اذیتیں دی گئیں جو کسی دوسرے کو نہیں دی گئیں۔تیس دن اور تیس راتیں ایسی گزریں کہ میرے اور میرے رفیقِ سفر بلالؓ کے پاس کوئی بھی کھانے کی چیز نہ تھی سوائے اس تھوڑی سی چیز کے جس کو بلالؓ اپنی بغل میں دبائے ہوئے تھے‘‘ (ترمذی)
کعب بن عجرہؓ فرماتے ہیں، مَیں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپؐ کا چہرہ اترا ہوا ہے۔مَیں نے عرض کیا ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان۔آپ کا چہرہ کیوں اترا ہوا ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے بتایا کہ ’’تیں دن ہو گئے پیٹ میں ایک دانہ نہیں گیا ۔‘‘
کعب بن عجرہ کہتے ہیں ’’مَیں گیا تاکہ آپ ﷺ کے لئے کچھ انتظام کروں۔دیکھا کہ ایک یہودی اپنے اپنے اونٹوں کو ڈول سے پانی بھر بھر کر پلا رہا ہے۔ مَیں اس سے ہر ڈول پر ای کھجور کا معاملہ طے کرکے ڈول بھرنے لگا۔اس طرح مَیں نے بہت سی کھجوریں اکٹھی کیں۔انہیں لے کرحضور ﷺ کے پاس آیا۔آپ ﷺ نے پوچھا ’’یہ تمہیں کہاں سے ملیں‘‘
تو مَیں نے واقعہ بتایا۔ تب نبی ﷺ نے پوچھا ’’اے کعب کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟‘‘ مَیں نے ’’ہاں آپ پر میرا باپ قربان ہو‘‘۔آپ ﷺ نے فرمایا ’’جو لوگ مجھے محبوب بناتے ہیں ان کی طرف فقروفاقہ اس سے زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے جتنا تیز سیلابی پانی ڈھلان کی طرف بڑھتا ہے۔اے کعب ! تمہیں بھی امتحان سے دو چار ہونا پڑے گا تو فقروفاقہ اور معاشی تنگی کا مقابلہ کرنے کے لئے ہتھیار فراہم کر لو۔‘‘ (ترغیب و ترہیب بحوالہ طبرانی)
امت کے لئے حضورؐ کا اسوہ بے لوثی، بے نیازی اور فقر کا ہے ۔آپ کی زندگی فقر کی زندگی تھی ۔تمام زندگی یہی فقر آپ کا طرہ امتیاز رہا۔اور یہ سب اپنے رب کی رضااور خوشنودی کے لئے تھا۔حضور ﷺتاریخ انسانی کے ماتھے کا جھومراور شرف ہیں ۔آپ نے تاریخ انسانی کو اپنے کردار سے روشن اور منور کیا۔ایسے تابندہ اور روشن کردار کو اختیار کرکے امت مسلمہ آج بھی کامیابیاں سمیٹ سکتی ہے اور عروج سے ہمکنار ہو سکتی ہے اور حضورؐ کا اسوہ حسنہ امت کی بگڑی بنا سکتا ہے۔ کاش امت حضورؐ کے اسوہ حسنہ کر حرزجاں بنا لے۔
سلام اس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پرکہ جسکے گھرمیں چاندی تھی نہ سوناتھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
2 comments:
Salaa aa aamna k laal aa mahboob i subhani
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو کامیاب زندگی گزارنے کے9 رہنما اصول بتائے۔ (1) ظاہر و باطن ہر حال میں خدا سے ڈرتا رہوں (2) غصے اور خوشی دونوں میں انصاف کی بات کہوں (3) غریبی اور امیری میں اعتدال پر قائم رہوں (4) جو مجھ سے کٹے، میں اس سے جُڑوں (5) جو مجھے محروم کرے میں اُسے دوں (6) جو مجھ پر ظلم کرے میں اُسے معاف کردوں (7) میری خاموشی غور و فکر کی خاموشی ہو (8) میرا بولنا ذکر الٰہی کا بولنا ہو (9) میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔ (نسائی‘ مسند احمد)
Post a Comment