5 فروری اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن ہے،جسے
پاکستان ہی نہیں بلکہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ وادی میں پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر گذشتہ 23 سالوں
سے پاکستان میں باقاعدگی سے منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو بطور یوم یکجہتی
کشمیر منانے کا آغاز 1990 میں اس وقت جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کی اپیل
پر ہوا۔ جس پر اس وقت کی وزیر اعظم
پاکستان محترمہ بےنظیر بھٹو اور اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر اور قائد حزب اختلاف
میاں محمد نواز شریف نے لبیک کہا اور پوری قوم اس پر متحد ہو گئی اور یہ اعلان کیا
کہ کشمیریو ! تم ہمارے ہو، پاکستان تمہارا ہے۔ تب سے آج تک یوم یکجہتی کشمیر ہر
سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔
یوم
یکجہتی کشمیر صرف اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ تحریک
تکمیل پاکستان کے لئے عزم اور با مثال جدوجہد کا حصہ ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم
محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔66 برس سے یہ شہ رگ ہندو
بنئے کے زیر تسلط آذادی کے لئے بے قرار اور بے چین ہے۔ کشمیری حق خود ارادیت کے
لئے جدوجہد میں مصروف ہیں اور اس پر وہ کوئی سمجھوتہ یا لین دین کرنے کو تیا ر
نہیں۔ بھارت ریاستی دھشت گردی کے ذریعے جذبہ حریت اور حق خود ارادیت کو کمزور نہیں
کر سکا۔ اہل کشمیر اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت
مانگ رہے ہیں۔ بھارت نے تمام تر عالمی قوانین کو
بالا طاق رکھتے ہوئے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے جو نہ صرف عالمی
قوانین کی خلاف ورزی اور عالمی ضمیر کے منہ پر طمانچہ اور اقوام متحدہ کا جواز اور
وجود پر ایک بڑے سوالیہ نشان کے مترادف ہے۔ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں بھارت کے اس وقت
کے وزیراعظم جواہر لال نہرو خود لے کر گئے اور اب بھارت خود ہی اقوام متحدہ کی
قراردادوں سے منحرف ہو رہا ہے۔ اگر اقوام متحدہ مشرقی تیمور اور سوڈان میں ریفرنڈم
کرا سکتی ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں۔ اب تو بھارت میں بھی ریفرنڈم کے حق میں آوازیں بلند ہونا شروع
ہو گئی ہیں ۔ عام آدمی پارٹی کے مرکزی رہنما پرشانت بھوشن نے بھی دو ٹوک انداز میں
کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کے لئے کہا ہے۔ اسی طرح ارون دھتی رائے ، گوتم نو لکھا جیسے انسانی حقوق کے
علمبردار دانشور یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں
کہ بھارت کی اٹوٹ کی رٹ بے معنی اور فضول ہے۔ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیے
بغیر بھارت کی اپنی سلامتی محفوظ نہیں۔
جبکہ کانگریس ، بھارتی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے رویے اور سوچ وہی پرانی ہے جس
میں تبدیلی کے آثار کم ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔
بھارت
نے کشمیر کو ملٹری کیمپ میں تبدیل کر رکھا ہے۔ 8 لاکھ کے لگ بھگ پیراملٹری فورس کے
ذریعے کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہے اور بھارتی فورسز رسوائے زمانہ قوانین کے نفاذ
کے ذریعے حق خود ارادیت کی تحریک کو کچلنا چاہتی ہے۔66سال سے جاری اس تحریک کو
کچلنا آسان کام نہیں لیکن بھارتی مظالم ہیں کہ بڑھتے چلے جاتے ہیں اور انسانی حقوق
کی پامالی کا سلسلہ رکنے میں نہیں آتا۔ 1989 سے 2013 تک انسانی حقوق کی پامالی کے
چند اعداد و شمار؛
کل شہادتیں
|
94,984
|
زیر حراست شہادتیں
|
7,014
|
زیر حراست شہری
|
1,22,711
|
تباہ شدہ ذاتی
املاک
|
1,05,966
|
عورتیں جو بیوہ
ہوئیں
|
22,776
|
بچے جو یتیم ہوئے
|
1,07,466
|
جنسی تشدد کے
واقعات
|
10,086
|
بھارتی
فوج ان بدترین مظالم کے ساتھ انسانیت اور انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر رہی ہے ،
آبادیاں ویران اور قبرستان آباد ہورہے ہیں۔ ان تمام مظالم پر عالمی انسانی حقوق کے
علمبردار بالخصوص امریکہ اور برطانیہ
خاموش تماشائی بنے دکھائی دیتے ہیں۔
بھارت آذاد کشمیر کو پانی سے محروم کرنے کے لئے ڈیم بنا رہا
ہے۔ دریاؤں کا رخ موڑنے کے منصوبے ترتیب دیے جا رہے ہیں ، کشن گنگا ڈیم جس کی بڑی
مثال ہے۔ دریائے نیلم میں پانی کی مطلوبہ مقدار حاصل نہ ہوپانے کے باعث نیلم جہلم
ہائیڈل پراجیکٹ کی پیداوار شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی طرح دیائے سندھ کو خشک
کرنے کے لئے کوہ ہمالیہ کے دامن میں بڑی تعداد میں ڈیمز بنانے کا منصوبہ ہے۔
کشمیریوں
کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے بھارت کے ساتھ تجارت اور معاہدات سے پہلے کشمیر ایشو
پر بات کرنا ضروری ہے کیوں کہ جب تک بھارت کشمیر پر سنجیدگی سے بات کرنے کو تیار
نہ ہو اس کے ساتھ دوستی یا تجارت کرنا سوائے خسارے اور کشمیریوں کو مایوس کرنے کے
کچھ حاصل نہ ہوگا اس لئے حکومت کو اہل کشمیر کی خواہش کے علی الرغم کوئی ایسا
اقدام نہیں کرنا چاہیے جس سے پاکستان کشمیر کے حق کے سے دستبردار ہوتا دکھائی دے۔
پاکستان اہل کشمیر کا وکیل ہےاور اسے مسئلہ کشمیر مضبوط مؤقف اختیار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی
قرار دادوں کی روشنی میں کشمیریوں کے حق خود اردیت کے لئے اپنا کردار ادا کرے
کشمیر کو از سر نو Core Issue قرار دیا جائے۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی اور آبی
جارحیت کی حکمت عملی کو اقوام متحدہ ، او ائی سی اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں
اجاگر کر کے بے نقاب کیا جائے ۔ مسئلہ کشمیر پر چین کی طرف سے ثالثی کی پیش کش سے
فائدہ اٹھانے اور امریکی اثر ور سوخ سے نجات کے لئے مؤثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔
کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے یہ اقدامات ناگزیر ہیں۔
1 comments:
ماشا اللہ بہت ہی زبردست تحریر ہے
Post a Comment