Wednesday 3 December 2014

بچوں کی تعمیر سیرت میں ادب کا کردار

| |
اردو زبان و ادب میں بچوں کی دلچسپی کا پورا سامان موجود ہے، گو لکھنے والوں کی عدم توجہی ہمیشہ آڑے آتی رہی۔ دانشور شاعر اور ادیب نے بچوں کے ادب پر وہ توجہ نہ دی جو دی جانی چاہیے تھی لیکن اردو ادب کا دامن بچوں کے ادب کے حوالے سے بالکل خالی بھی نہیں، حمد و نعت ہو یا نظمیں، اخلاقی مضامین ہوں یا کہانیاں اور ان کے دوسری زبانوں سے تراجم کیے گئے ۔۔۔، بچوں کا ادب اپنے اندر بچوں کی دلچسپی کا خاص سامان رکھتا ہے۔ امیر خسرو ہوں یا نظیر اکبر آبادی، غالب ہوں یا ڈپٹی نذیر احمد، مولانا آزاد ہوں یا مولانا الطاف حسین حالی، اسمعیل میرٹھی ہوں یا علامہ محمداقبال، پریم چند ہوں یا علامہ تاجور نجیب آبادی، عبدالمجید سالک ہوں یا چراغ حسن حسرت، شوکت تھانوی، کرشن چندر ان سب نے بچوں کے ادب میں گراں بہا اور گراں قدر اضافہ کیا، سنجیدہ بھی لکھا اور مزاحیہ بھی۔
بچوں نے اپنی اپنی پسند اور ذوق اور دلچسپی کے پیش نظر اس سرمایہ ادب سے لطف اٹھایا۔ بچوں کے ادب کی مختلف جہتیں اور اقسام ہیں۔ جن میں زیادہ نمایاں اور مقبول درج ذیل ہیں۔ 
اسلام اور اسلامی تعلیمات، قرآن مجید، احادیث کو موضوع بنا کر لکھا گیا۔ سوانح نگاری ایک دلچسپ اور پسندیدہ موضوع ہے بالخصوص سیرت رسولؐ پر بچوں کو پیش نظر رکھ کر بہت کچھ لکھا گیا۔ بچوں کی کردار سازی کے لیے حضورؐ سے بہتر کوئی ماڈل اور نمونہ نہیں۔
صحابی کرامؓ، صحابیاتؓ، خلفائے راشدین، تابعین، بزرگان دین، انبیا کرام ، مسلمان فاتحین و سپہ سالار، تحریک پاکستان کے قائدین، قومی ہیرو اور رہنما، شعراء اور ادباء جن کی زندگیاں نسل نو کے لیے روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہیں۔جن کی سوانح پڑھ کر جذبہ و ولولہ حاصل ہوتا ہے۔ ان روشن زندگیوں کا مطالعہ جہاں بچوں کو ان شخصیات سے متعارف کرواتا ہے وہیں پر ان کی ذات اور شخصیت سے سیکھنے پر بھی ابھارتا ہے۔ اسی طرح تاریخ بہت اہم موضوع ہے اسلامی تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر بچوں کے ذوق اور پسند کے پیش نظر کئی کتب لکھی گئی ہیں۔ اسی طرح تاریخ پاک و ہند، مختلف تہذیبوں، جغرافیہ، سائنس، حیوانات، نباتات و جمادات، فلکیات اور طنزومزاح پر خوبصورت انداز میں لکھا گیا ہے۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں میں سید سلیمان ندوی، صوفی تبسم، سراج الدین ظفر، امتیاز علی تاج، حفیظ جالندھری، حجاب امتیاز علی، انور عنایت اللہ، سید عابد علی عابد، سر شیخ عبدالقادر، ہاجرہ سرور، مرزا ادیب، الطاف فاطمہ، غلام عباس، آغا اشرف، ابوالخیر کشفی، سید وقار عظیم، اے حمید، کلیم محمد سعید، حکیم چغتائی، مسعود برکاتی، خواجہ عابد نظامی، فرخندہ لودھی، مائل خیر آبادی، بنت الاسلام، ضیغم مغیرہ، طالب ہاشمی، خالد بزمی، مظہر کلیم، انور داؤدی، رضا علی عابدی، ڈاکٹر سلیم اختر خاص طور پر نمایاں قابل ذکر ہیں۔
بچوں کے رسائل جس لگن اور محنت کے ساتھ بچوں کی تربیت، کردار سازی اور تعمیر شخصیت میں حصہ لیتے ہیں وہ قابل قدر اور حوصلہ افزا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل لاہور سے تعلیم و تربیت اور پھول نکلتے تھے۔ جن میں چھپنے والی نظمیں اور کہانیاں بچوں کے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث ہوتیں، موجودہ دور میں بچوں کے رسائل میں پیغام ڈائجسٹ، شاہین، ساتھی، تعلیم و تربیت، آنکھ مچولی، نونہال، ذہین، روشنی، ستارہ، پھلواری، بچوں کا اسلام، ٹوٹ بٹوٹ، سہیلی میگزین، کھلونا، کھیل کھیل، اور انکل سرگم نمایاں مقام رکھتے ہیں اسی طرح اخبارات میں شائع ہونے والے بچوں کے صفحات بچوں کی خصوصی دلچسپی کا سامان لیے ہوتے ہیں اور ان کے ذوق مطالعہ کے جلا بخشتے ہیں۔
بچوں کے لیے لکھنے والے شعرا نے بچوں کے لیے خوبصورت اور دلچسپ نظمیں لکھیں۔ جن میں جانوروں، پرندوں، پھلوں پھولوں، چاند ستاروں، بچوں اور بوڑھوں کا تذکرہ ہے۔ بچوں کی شاعری پر مشتمل مجموعہ کے جہاں شاعر کی بچوں سے انسیت اور محبت کے غماز ہیں وہی پر ان کو مختلف رنگوں اور تصویروں کے ساتھ عمدہ کاغذ پر شائع کیا جاتا ہے۔ جن میں سراج الدین ظفر کا مجموعہ بولتی الف ب، شہلا شبلی کا جھنجھنا، صوفی تبسم کے جھولنے اور ٹوٹ بٹوٹ، ابن انشاء کا بلو کا بستہ، عبدالمجید بھٹی کا بولتی تصویریں، رفیق احمد خان کا آؤ بچو گاؤ بچو،عزیز الرحمن عزیز کے پھول، تارے تتلیاں، خاطر غزنوی کا ننھی منھی نظمیں، آغا شیدا کاشمیری کا پیارے گیت، وغیر قابل ذکر ہیں۔ علامہ اقبال کی بچوں پر لکھی گئی نظروں کے مجموعے خوبصورت اور دیدہ زیب انداز میں شائع کیے گئے ہیں۔
موجودہ دور میں بچوں کی کہانیاں لکھنے والوں میں جنہوں نے نام کمایا ان میں سے چند نام یہ ہیں: ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، ڈاکٹر رضوان ثاقب، ناصر زیدی، محمد یونس حسرت، اختر عباس، عذرا اصغر، توصیف تبسم، پروین حق، نزیر انبالوی، توراکینہ قاضی، طالب ہاشمی، کرامت بخاری، شیما مجید، اشفاق احمد خاں، نعیم احمد بلوچ، جنھوں نے بچوں کے ذوق مطالعہ میں اضافہ، زبان کی وسعت اور ذہن کی آبیاری اور کشادگی کے لیے لکھا۔ اس ضمن میں ابن صفی اور اشتیاق احمد اور نسیم حجازی کا نام جلی حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ جن اداروں نے بچوں کے ادب کے لیے کام کیا۔ ان میں چند اداروں کے نام اور چند کتب درج ذیل ہیں:
دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد، منشورات ،لاہور، اسلامک پبلی کیشن، لاہور، ادارہ معارف اسلامی، لاہور، اردو سائنس بورڈ، ادارہ مطبوعات طلبہ، لاہور، نیشنل بک فاؤنڈیشن، البدر پبلی کیشنز، لاہور، خواتین میگزین، فیروز سنز، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، مقبول اکیڈمی، اردو اکیڈمی سندھ، دارالسلام، لاہور، آکسفورڈ پریس، ترقی اردو بورڈ، چلڈرن اکیڈمی۔
اسی طرح بچوں کی کتب شائع کرنے والے بعض ادارے سی ڈیز کے ذریعے بھی بچوں میں شوق مطالعہ کے لیے کوشاں ہیں۔ چند سی ڈیز اسلامی نظامت تعلیم نے بھی بنائی ہیں۔
بچوں کے لیے سب سے اہم لٹریچر ’’کتاب اللہ ‘‘ ہے۔ والدین اور اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن حکیم پڑھنا جانتے ہوں اور بچوں کوبھی پڑھاسکتے ہوں ۔ خود اس کاآسان زبان میں ترجمہ کرسکتے ہوں تو بہت بہتر ہے ورنہ مترجم قرآن پاک سے مدد لے سکتے ہیں اور قرآن حکیم کے معارف،احکام اور قصص کو بچوں کے ذہن نشین کراسکتے ہیں۔ 
قرآن حکیم کے بعد جس لٹریچر سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے وہ دو قسم کاہے ۔ ایک دینی لٹریچر ہے ، اس میں سرفہرست سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ والدین اوراساتذہ کا رہبر کامل خاتم الانبیا المرسلین ﷺکی سیرت طیبہ سے مکمل طور پر واقف ہوناضروری ہے۔ اسی صورت میں وہ حضورﷺکی حیات طیبہ کے واقعات ،آپ ؐ کے ارشادات اور اسوہ حسنہ سے بچوں کو آگاہ کرسکیں گے۔
دوسرے درجے پر صحابہ کرامؓ ،صحابیاتؓ اور دوسرے سلف صالحین کی سیر ت ہیں۔ ان سے سبق آموز واقعات اخذ کرکے آسان زبان میں بچوں کو سنانا بڑی افادیت کاحامل ہے۔
تیسرے درجے پر تاریخ اسلام ہے۔ اس موضوع پر مختصر لیکن جامع کتابیں بہت مفید ہیں۔ والدین اور اساتذہ کا اپنی تاریخ سے واقف ہوناضروری ہے۔ بالخصوص تاریخ کے وہ ابواب جن میں ہمارے شاندار ماضی کی عکاسی کی گئی ہو،بچوں کو ان سے آگاہ کرنابھی ان کی عمدہ تربیت کا ایک حصہ ہے۔ ان کو سچی کہانیوں کے پیرایہ میں بھی بیان کیاجاسکتاہے۔
چوتھے درجے پردین کے ضروری مسائل اور دینی اصلاحات ہیں۔ ایسی کتابیں جن میں دین کے ضروری مسائل بیان کیے گئے ہوں اور دینی اصطلاحات کی تشریح کی گئی ہو مثلاً توحید ،رسالت ، فرشتے ، یوم آخرت ، خیر ، شر ، نماز ، روزہ ، حج ،زکوٰۃ ، طہارت ،فرض ، واجب سنت وغیرہ۔ والدین اور اساتذہ کے لیے ان سے واقف ہوناضروری ہے تاکہ وہ بچوں کو اسلام کے ارکان اور اس کی روح سے آشنا کرسکیں۔ فی الحقیقت قرآن حکیم کے بعد اس قسم کے لٹریچر کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ بالخصوص ذرا بڑی عمر کے بچوں کے لیے تو اس قسم کے لٹریچر سے استفادہ کرناناگزیر ہے۔ 
پانچویں درجے پر دلچسپ اخلاقی کہانیاں ہیں۔ ان میں جنوں ، بھوتوں ، جادوگروں وغیرہ کے بجائے نیک لوگوں کے واقعات بیان کیے گئے ہوں۔ بچوں کو ایسی کہانیاں سنا کر ان کے دلوں میں دین اور وطن سے محبت ، خدمت خلق، ایثار ،نیکی ،بہادری اور ہمدردی کے جذبات پیداکیے جاسکتے ہیں۔دوسرے قسم کے لٹریچر میں ایسی کتابوں کی ضرورت ہے:
۱۔ جو بچوں کی نفسیات کے مختلف پہلوؤں مثلاً بچوں کی ضد،بچوں کی شرارتیں ،بچوں کا خوف ،بچوں کی نفرت، بچوں کاچٹورپن ،بچوں کے جھوٹ وغیرہ کے بارے میں مکمل معلومات بہم پہنچاتی ہوں۔
۲۔ جو بچوں کی جسمانی صحت کے بارے میں صحیح اور مستند معلومات مہیاکرتی ہوں۔
۳۔جو بچوں کوکھانے پینے کے آداب سکھاتی ہوں ، ان کے اخلاق درست کرتی ہوں اور اچھی عادتیں اپنانے کی تحریک پیداکرتی ہوں۔ 
۴۔ جو کھیل اور دوسرے ذرائع سے بچوں کی تربیت کے طریقے بتاتی ہوں۔

1 comments:

Its a nice article, you had to provide in detail audio video work for children training and education in your article.

Post a Comment