Wednesday 1 July 2015

آن لائن خبروں کا بڑھتا رجحان

| |
اس میں شک نہیں کہ موجودہ زمانہ بجا طور پر میڈیا کا زمانہ ہے، میڈیا معاشرے پر اثرانداز ہورہا ہے اوراس کے ذریعے نت نئے اس کے انداز،رحجانات متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب میڈیا میں اتنی تیزی نہیں آئی تھی اور نہ اتنے چینل تھے خبریں ہوتی تھیں یا ایک آدھ ڈرامہ یا پھرکوئی دوسری سرگرمی اور بس۔

اب تو چینلز کا ایک پورا سلسلہ ہے جہاں ہر گھنٹے بعد نیوز بلیٹن نشر ہوتا ہے بریکنگ نیوز الگ، دینی معلوما ت اور رہنمائی کے چینلز الگ ہیں، ڈراموں ، گانوں اور فلموں کے الگ ، جس کا جوذوق ہے وہ اپنے ذوق کے مطابق تسکین کرلے۔
لیکن آج کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ لمحہ بہ لمحہ باخبر رہنے کی جستجو اور تجسس میں رہنے والی نوجوان نسل اب آن لائن خبروں کی جانب متوجہ ہورہی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ٹی وی خبرنامے اب کم کم دیکھے جانے لگے ہیں۔
بڑے نشریاتی ادارے اس رحجان کے پیش نظر بہت کچھ سوچنے اور کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور اس طرح تمام پرانے کاروباری ماڈلز کے لیے پریشانیاں بڑھ رہی ہیں جبکہ فیس بک اور دوسری آن لائن سروسز کے ذریعے معلومات تک رسائی کی خواہش اور اس کی بڑھتی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
آن لائن خبروں کا رحجان صرف نوجوان طبقے تک محدود نہیں ہے ۔ معاشرے کے سنجیدہ طبقات اور آبادی کا دوسرا بڑا حصہ بھی ٹی وی خبروں سے بیزاری محسوس کرنے لگا ہے۔ انٹرنیٹ کے دور میں ٹی وی کی صنعت کا فی حد تک لچکدار رہی ہے اور ناظرین کی ایک بڑی تعداد کافی حد تک مستحکم ، لیکن اس زمانے میں سب سے زیادہ خطرہ خبروں کی صنف کو لاحق ہوا ہے۔ کیونکہ ناظرین اب شام کی خبروں کا انتظار کرنے کی بجائے انٹرنیٹ پر سارا دن تازہ ترین خبریں تلاش کرکے پورا دن دیکھ سکتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ٹیکنالوجی کمپنیز نے خبروں کی پیشکش اور طریقہ کار کو نہ صرف بہتر بنایا ہے بلکہ پرکشش بنانے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی Face book اورAppleنے بھی نئی طرز کی پیش کشیں متعارف کرائی ہیں۔ نیزBBC، CNBCاور دوسرے میڈیا گروپوں نے بھی خبروں پر مشتمل کچھ مواد اپنی اپنی ویب سائٹس پر دینے کے لیے ان سے معاہدے کیے ہیں۔ جبکہ ایپل نے خبروں تک پہنچنے کے لیے ان کے نئے ڈیزائن کا پورٹل نیوز بھی بنایا ہے۔ 
اس وقت دنیا کے تمام ممالک میں خبروں کا سب سے زیادہ پاپولر سماجی رابطے کا ذریعہ فیس بک ہے۔ٹیکنالوجی کمپنیوں پر بڑھتی اس ذمہ داری کا ایک مطلب یہ بھی لیاجاسکتا ہے کہ ان پر ایڈیٹوریل ذمہ داریاں بھی لاگو ہورہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کمپنیاں زیادہ مہارت والے لوگوں کو ملازمت دے رہی ہیں جو آئندہ ٹوئٹر اورفیس بک کے لیے نظرانداز کرنا ممکن نہ ہوگا۔
پیغام رسانی خدمات(SMS) بھی خبر کا ایک اہم ذریعہ ہے جو تیزی سے مقبول ہورہی ہیں اس کا نتیجہ ہے کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد Whatsapp پر خبریں دیکھتے سنتے اور پڑھتے ہیں اور ڈسکشن کرتے ہیں جبکہ واٹس ایپ فیس بک کی ملکیت ہے۔تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ امریکہ ، ا سپین ، آسٹریلیا اور اٹلی سمیت کئی دوسرے ممالک میں انٹرنیٹ صارفین کے لیے خبروں کا اہم اورمقبول ذریعہ آن لائن میڈیا ہے TVچینلز نہیں۔
آن لائن خبریں نشر کرنے والوں کو آن لائن منافع کمانے میں بعض خطرات بھی ہیں جیسے گوگل جیسے نیٹ ورک اپنی آمدن میں شراکت پسند نہیں کرتے، اشتہارات کے کم ترین نرخ اور اشتہارات بلاک کرنے والاسوفٹ وئیر۔
بہت سے اخبارات اور اداروں نے اس ضرورت کے تحت آن لائن سبسکرپشنز متعارف کرائی ہیں لیکن اس ضمن میں آن لائن معلومات یا خبروں کے حصول کے لیے پیسے خرچ کرنے کا رحجان دور دور تک نظر نہیں آتا کہ لوگ پیسے خرچ کرکے معلومات یا خبریں حاصل کریں ،ویسے بھی بی بی سی نے کسی بھی دوسرے ادارے کے لیے آن لائن مواد کی فروخت ناممکن بنادی ہے۔جہاں عالمی سیاست سے لے کر کھیلوں تک کی خبریں بغیر کسی خرچ کے دیکھی جاسکتی ہیں۔بہرحال آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

0 comments:

Post a Comment