Monday 13 July 2015

عبداللہ حسین اور ’’اداس نسلیں‘‘

| |
لمبے قد ، سفید براق داڑھی جس کے ساتھ مونچھیں پیوست۔ لب و لہجہ جانداراور منفرد ،دبنگ اورخوبصورت شخصیت کے مالک’ محمدخان‘ جنہوں نے عبداللہ حسین کے ادبی نام سے شہرت پائی اور اُفق ادب پر جگمگائے ، اداس نسلیں ان کی پہچان بن گیا ۔ چند روز قبل 84سال کی عمر میں بلڈکینسر سے انتقال کر گئے۔
عبداللہ حسین 14اگست 1931ء میں راولپنڈی میں پیداہوئے ۔ ان کا آبائی شہرگجرات تھا۔ ان کے والد ایکسائز انسپکٹر تھے جبکہ والدہ بچپن میں وفات پا گئی ،ان کی تربیت کی تمام ذمہ داری ان کے والد نے ادا کی ۔ انہوں نے زمیندارہ کالج گجرات سے بی ایس سی کی اور کیمسٹ کاڈپلومہ کرنے کے بعد ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری ڈنڈوت سے ملازمت شروع کی۔ اس کے بعد سیمنٹ فیکٹری داؤد خیل میانوالی میں گئے۔ کینیڈا سے سیمنٹ ٹیکنالوجی میں سپیشلائزیشن کیا ، ٹیکسلا کی سیمنٹ فیکٹری میں بطورچیف کیمسٹ کام کیا۔ 1966ء میں انگلینڈ چلے گئے پہلے ایک سیمنٹ فیکٹری میں ملازمت کی پھر گیس کمپنی میں ملازم ہوگئے۔ اپنا کاروبار بھی کیا 6سال بعد مستقل طور پر ناول نگاری کی طرف آگئے۔
ان کی زندگی کا زیادہ حصہ بیرون ملک بالخصوص لندن میں گزرا۔ ان کاپہلا ناول ’’اداس نسلیں ‘‘ 1963ء میں منظر عام پر آیا۔ برطانوی راج کے عرصے پر محیط یہ کہانی ’’اداس نسلیں ‘‘ تین نسلوں کی نمائندہ کہانی ہے ، اُداس نسلیں ،نے ان کی شہرت کو چار چاند لگائے۔ اور ادبی اُفق پر متعارف کرانے میں بنیادی کردارادا کیا۔ان کے دیگر ناولوں میں باگھ ، نادار لوگ ، فریب اور نشیب جیسے لازوال ناول اور کہانیاں شامل ہیں۔
پنجابی اور اُردو تڑکے ساتھ لکھا گیا ’’اُداس نسلیں ‘‘ ایک نئی طرز کے اسلوب کاحامل ہے۔ نئی نسل نے ان کے اس ادبی اجتہاد کو پسند کیا ۔ جس سے ان کے اس ناول کو پذیرائی ملی ۔ اداس نسلیں ان کی پہچان تھا۔ حالانکہ خود ان کو ذاتی طور پر اپنا ناول ’’باگھ ‘‘ زیادہ پسند تھا۔ جسے پڑھنے کے لیے وہ اپنے ملنے والوں کو ضرور کہتے ۔
ان کی تحریروں میں حقیقت پسندی کارنگ غالب نظر آتا ہے جبکہ تاریخ و سیاست اس کالازمی جزواور حصہ ، ان کے ناول تخیل کی بجائے حقائق سے عبارت ہیں، ان کے ناولوں کامطالعہ بتاتاہے کہ لکھنے والے نے لکھتے وقت خاصی تحقیق و جستجو سے کام لیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لکھتے وقت بے انتہا محنت سے کام لیتے ۔ پہلے لکھتے پھر اُسے صاف کرنے کی نیت سے دوبارہ لکھتے جس سے تحریر نکھر نکھر جاتی ۔ اور اس میں جان پڑ جاتی ۔
ان کے پسندیدہ ناول نگاروں میں قرۃ العین حیدر پسندیدہ ادیب جبکہ ان کا ناول ’’آگ کا دریا ‘‘ پسندیدہ ناول تھے ۔ جس کا عکس اداس نسلیں میں بھی جابجا نظر آتاہے۔ بڑے آدمی کی باتیں بڑی ہوتی ہیں وہ خود بتاتے کہ اُ د اس نسلیں کا ابتدائی حصہ ’’آگ کا دریا ‘‘سے متاثر ہو کر اس کے اندازو اسلوب میں لکھنے کی کوشش کی حالانکہ کوئی لکھنے والا یہ بات نہیں بتاتا۔
راجندرسنگھ بیدی اور دوستو فسکی بھی ان کے پسندیدہ لکھنے والوں میں شامل ہیں۔ اُردومیں میر و غالب ، فیض اور ناصر کاظمی جبکہ انگریزی میں ٹی ایس ایلیٹ کی شاعری انہیں پسند تھی۔ انہوں نے ہمیشہ ڈرامے پر ناول کو ترجیح دی ، ڈرامے لکھنے کو وہ اچھا نہیں سمجھتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ناول کی حقیقت مستقل چیز کی ہے جبکہ ڈرامہ وقتی نوعیت کی چیز ہے۔ اپنی سوچ اور فکر کے اعتبار سے وہ ایک مکمل سیکولر اور مادہ پرست انسان تھے۔ ان کی اس سوچ کااظہار ان کی تحریروں میں بھی ملتاہے۔
کلچر کے بارے میں ان کی اپنی ایک رائے تھی وہ کہتے کہ علماء نے کلچر کے مفہوم کو کنفیوژڈ کررکھاہے۔مذہب کلچر پر اثر انداز ہوتاہے لیکن ہمارے ہاں اس کا اثر کچھ زیادہ ہی ہے۔ ان کا خیال تھاکہ ہمارے ہاں کلچر میں توازن نہیں ایک طرف فیشن شوز اور کیٹ واک کرنے والے مغربی کلچر کی تقلید کرتے ہیں دوسری طرف ایک بڑی سیاسی ومذہبی جماعت کے ذمہ دار سید منورحسن بیان دیتے ہیں کہ ’’جہاد اورشہادت ہمارا کلچر ہے‘‘ وہ کہتے تھے کہ یہاں کلچرکی واضح دوٹوک تعریف نہیں کی گئی۔ ان کی طبیعت میں رومان پسندی اور محبت کا خمیرگُندھا تھا جس کااظہار ان کے ناولوں میں ہوتاہے بالخصوص ’اداس نسلیں ‘ اس کااعلیٰ ترین مظہر ہے جس میں ایک نواب کی بیٹی ایک غریب کسان کے بازو سے محروم لڑکے سے شادی کرلیتی ہے ۔ ان کا خیال تھاکہ یہ جذبہ قربانی محبت پیداکرتی ہے، اس کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ان کے ناول ’’باگھ ‘‘ کی کہانی بھی محبت کی کہانی ہے ایسے لگتاہے کہ جیسے ان نے آغاز جوانی میں محبت کی اور محبت میں ناکامی پر یہ آہنگ بنا اور ناولوں کی شکلوں میں ظہور پذیر ہوا۔
ان کی ادبی خدمات پر اکادمی ادبیات پاکستان نے انہیں 2012ء میں کمال فن انہی کے نام سے ادبی ایوارڈ سے نواز ا جس کے ساتھ 5لاکھ نقد اعزازبھی ہوتاہے۔ عطاء الحق قاسمی نے الحمرا آرٹ کونسل کی جانب سے بھی لاکھوں کے انعامات انہی دلوائے۔
تمام زندگی وہ کسی ادبی تنظیم سے وابستہ نہ ہوئے البتہ ترقی پسند ی ان کی پہچان بن گئی اور ترقی پسندحلقے نے انہیں اپنا لیا۔ بحیثیت ناول نگار انہوں نے زبان و ادب کو وافر سرمائے سے نوازا ، اس اعتبار سے ان کی جو قدرہونی چاہیے تھی وہ اس سے محروم رہے لیکن اب وہ اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں وہ ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہوگئے ہیں۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

2 comments:

Ma Sha Allah bahut umda aur mutawazan tahreer hai.
Hamidullah khattak

Ma Sha Allah bahut umda aur mutawazan tahreer hai.
Hamidullah khattak

Post a Comment