Saturday 18 July 2015

عید الفطر۔مسلمان کی شان وشوکت کااظہار

| |
میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو عیدالفطر کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ عیدالفطرپر حقیقی مبارکباد کے مستحق وہ ہیں جنھوں نے رمضان کے پورے روزے رکھے اور راتوں کوقیام ایمان و احتساب کے ساتھ کیا۔ قرآن مجید فرقان حمید کی ہدایت سے بھرپور اندازمیں فائدہ اٹھایا ، تلاوت کی، اسے سمجھنے کی کوشش کی اور اپنی رہنمائی کے حصول کاذریعہ بنایا اور تقویٰ کی وہ منزل پانے کی جستجو کی جس کی قرآن وضاحت اور یہ ماہ مبارک متوجہ کرتا ہے قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جنھوں نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اس کی رحمتوں اور برکتوں سے اپنے دامن کو سیراب کیا، رمضان میں بھوک پیاس کی مشقت ہی نہیں اٹھائی تقویٰ کا راز پایا، روزے رکھے راتوں کو قیام کیا،تراویح پڑھی، قرآن کے انوار سے اپنا دامن بھرا، اپنے اعمال کو درست کیا اور نیتوں کو خالص کیا اور انعام کی صورت میں عیدالفطر،جیسا عظیم تہوارپایا۔
عید کی صبح اللہ رب العزت اپنے فرشتوں کو ہر بستی اور شہر میں بھیجتے ہیں وہ زمین پر آتے ہیں اور گلیوں ،بازاروں اور چوراہوں پر کھڑے ہوکر انسانوں کومبارکباد پیش کرتے ہیں ۔انسان کے سواتمام مخلوقات ان آوازوں کو سنتی ہیں۔ یہ اللہ رب العزت کا اپنے بندوں کے لیے انعام ہے اور تحفہ ۔ کہ اللہ کے بندے ،عید کے دن صاف ستھرا لباس پہن کے خوشبولگاتے ہیں، کھجور اور سویاں کھاتے ہیں اور عید کی نماز پڑھنے کے لیے نکلتے ہیں، ایک راستہ سے جاتے ہیں اور دوسرے راستے سے واپس آتے ہیں۔ یہ ان کے نبیؐ کی سنت ہے اس سے پوری بستی میں رونق اور چہل پہل ہوجائے اور اسلام کی قوت و شوکت کا اظہار بھی۔
امت مسلمہ، خیرامت ہے نیکی کا حکم دیتی ہے اور برائی سے منع کرنے والی عظیم مقصد کی حامل امت، عظیم مقصد اور مشن رکھنے والی امت کے تہوار بھی عظیم ہوتے ہیں ور یہ تہوار اور جشن اس کے مقاصد اور مشن سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ عظیم امت کسی کی نقالی نہیں کرتی ۔لہوولعب کاشکارہوتی ہے اور نہ لغویات میں پڑتی ہے۔ اپنے تہواروں کو فطری انداز میں اپنے رب کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق مناتی ہے اور فطری طریقے سے ہی ان جذبوں کی تسکین کرتی ہے۔ اس امت کا تہوار منانے کا انداز بھی انوکھا و نرالا اور زمانے سے جدا ہے۔ رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں کے بعد اپنے رب کی بڑائی کا نعرہ بلندکیاجارہا ہے۔اس کی کبریائی کا اعلان کیاجارہا ہے۔ لوگ بلند آواز میں تکبیرکا ورد کرتے ہوئے ،عیدگاہ کی طرف رواں دواں ہیں، جہاں دو رکعت نماز عید ادا کریں گے۔ اور اپنے رب کا شکر ادا کریں گے کہ رمضان المبارک کے مبارک دن اور راتیں حاصل ہوئیں۔ نماز، روزے،تلاوت ، قیام اللیل ،انفاق فی سبیل اللہ اور لیلۃ القدر میں عبادت کی سعادت ملی۔
اس میں شک نہیں کہ عیدکے ان پر مسرت لمحات میں اس شخص کا کچھ حصہ نہیں جس نے رمضان کے ان بابرکت لمحات سے کچھ نہیں پایا۔ نیکی کی طرف سبقت کے لیے پکارا جارہا ہے لیکن وہ اپنی دنیا میں مگن رہا۔ اپنے نفس اور خواہش نفس کی پیروی کرتا رہا۔رحمت اور مغفرت کی پکار نظرانداز کرتا رہا توبہ استغفار اور رجوع الی اللہ سے محروم رہا۔رمضان اپنے بے پایاں خزانے لٹاتا رہا، لیکن غافل انسان نے ذرا توجہ نہ کی اور رمضان کے بابرکت لمحات اپنے اختتام کو پہنچے ۔آج یوم عید آن پہنچا، انعام و اکرام کا دن ، اپنے رب سے اعزاز پانے کا دن ۔ ایسے لوگ جنہوں نے رمضان کی بابرکت گھڑیاں غفلت میں گزاریں ان کے لیے یہ عید کا نہیں افسوس اور شرم کا دن ہے۔ اور وہ عید کے دن افسوس کے مستحق ہیں۔ ان کی محرومی تمام عمر کی محرومی ہے اللہ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو ان محرومیوں سے بچائے رکھے اور ان برکات جلیلہ سے نوازے رکھے۔
عید کی خوشیاں اس کے لیے ہیں جس نے رمضان کا حق ادا کیا، اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ عید کی خوشیاں اس کے لیے نہیں جس نے اپنے رب سے منہ موڑا اور غفلت میں پڑ ا رہا وہ عید کی حقیقی خوشیوں سے محروم رہے گا۔دوگانہ نماز اور فطرانے کی ادائیگی عیدالفطر کی نمایاں خصوصیت ہے۔ فطرانے کی ادائیگی کا حکم نماز عیدسے پہلے کا ہے۔ تاکہ کوئی غریب عید کی خوشیوں میں شرکت سے محروم نہ رہے، فطرانے کی ادائیگی کے بعد دو رکعت نماز عید کی ادائیگی ہے جس میں مردو خواتین ، عورتیں بچے سب شرکت کرتے ہیں، نماز عید کے لیے خواتین کے لیے الگ اہتمام کیاجاتا ہے۔ نماز عید اسلامی تہذیب اور کلچر کی بہترین عکاس ہے۔ جس میں تمام رنگ و نسل علاقے اور طبقہ کے لوگ امتیازات سے بالاتر ہوکر نماز عید ادا کرتے ہیں۔ نماز عید کی ادائیگی شہر کی بڑی مساجد ، کھلے میدانوں میں ادا کی جاتی ہے تاکہ اسلام کی عظمت و قوت اور شان و شوکت کا نظارہ دنیا دیکھے اور باطل پر اس کے اثرات مرتب ہوں،اورکوئی مسلمان کو کمزوراور ضعیف نہ سمجھے ، یہ تہوار مسلمان اور اسلام کی تہذیب ، قوت و شوکت اورعظمت و جبروت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ اللہ کرے کہ مسلمانوں کی عید واقعتا ان کی شان و شوکت اور قوت وجبروت کے اظہار کا ذریعہ بن جائے۔

0 comments:

Post a Comment