Friday 17 July 2015

رمضان نشریات اور Rating کی دوڑ

| |
رمضان المبارک کی مبارک اور بابرکت ساعتوں میں میڈیا اپنی Ratingبڑھانے ، بزنس کرنے کے لیے کیا کیا جتن کررہاہے۔ وہ بہت معیوب ، پریشان کن اور معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے لیکن اس جانب کسی کی توجہ نہیں ، حکومت اور حکومتی اداروں نے اس ضمن میں آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ اور چینلز کو کُھل کھیلنے کاموقع فراہم کررکھاہے۔ جو تعجب خیز ہی نہیں افسوسناک بھی ہے۔ 
ان ٹی وی چینلز پر ماہ رمضان کا تقدس اور احترام جس طرح پامال کیاجارہاہے وہ ایسا معاملہ نہیں جس کو نظر انداز کیا جاسکے اور اس رویے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیاجاسکے۔رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی رمضان نشریات کاخصوصی سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔ جس میں بے ہودہ کمرشلز، براہ راست نشریات جن میں بھانڈوں ، مراسی حضرات اور اداروں اور اداکاراؤں کی خدمات حاصل کرکے ان کے ذریعے دین اور دین کی تعلیمات، پیش کی جاتی ہیں اور پورے معاشرے میں ایک خاص ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اصل نیکی سارا دن ٹی وی دیکھنے اور سننے میں ہے۔ نماز پڑھنا، راتوں کو تراویح پڑھنا، قرآن کی تلاوت کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا ، صدقہ فطر ادا کرنا یہ ہیں اصل نیکی کے کام! اگر کوئی فرد یہ کام نہیں کرتا، سارا دن ٹی وی اور ٹی وی نشریات دیکھتاہے تو وہ حقیقی نیکی کے حصول سے محروم رہے گا۔ آج کل ٹی وی چینلز عوام الناس کے بھولپن سے فائدہ اٹھا کر ان کو نہ صرف بے وقوف بنا رہے ہیں۔ نیکی کی اصل سے محروم کررہے ہیں اور لغو اور بے ہودہ کارسیا بنا کر بے عمل بنا رہے ہیں اورمسلسل دین سے دور اور بدظن کررہے ہیں۔
رمضان المبارک میں ان فنکاروں کے ذریعے ناظرین کا ایمان تازہ کرنے کا سامان کیا جاتاہے۔ ان ناچنے گانے والوں کے ذریعے فل ٹائم یہ درس دیا جاتاہے کہ اب نماز تراویح اور روزہ ٹی وی کے ساتھ ہونا چاہیے نہ نماز کے لیے وقفہ ہے اور نہ تراویح کے لیے ، کوشش یہ ہے کہ جو کچھ ہم دکھا رہے ہیں وہ دیکھتے جاؤ اور جو ہم سنا رہے ہیں وہ سنتے جاؤ ، اسی طرح میڈیا کو اشتہارات دینے والی کمپنیز ، ادارے اور انعامات کے سپانسرز ،کاروباری حضرات ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ،بولی لگا رہے ہیں ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ وہ کتنی بڑی جسارت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اس کے نتائج کیانکلنے والے ہیں ۔ فحاشی وعریانی کو کیسے فروغ دیا جارہاہے اور اس فحش کی اشاعت میں ان کا کتنا حصہ شامل ہے ، ان کے بزنس کو قوت فراہم نہیں ہو رہی بلکہ برائی کے پھیلانے اور اشاعت میں ان کا حصہ شامل ہے جس کا بہرحال روز قیامت ان کوحساب دینارکھا۔ 
میڈیا کا بگاڑ اور خرابی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے ، اور یہ خرابی اور بگاڑ دن بہ دن بڑھ رہاہے۔ حکومت اور پیمرا، میڈیا مالکان اور اعلیٰ حکام ارو عوام الناس ان معاملات سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔حکومت بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے کہ اس کے اپنے مفادات عزیز ہیں۔ پیمرا کی شاید ماہیت قلبی ہوچکی ہے یا اس کو اس کا ادراک نہیں کہ کیا ہونے والا ہے ۔ اور عوام الناس مجموعی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اس نقار خانے میں طوطی کی کون سنتاہے۔ لہٰذا وہ بھی ٹک ٹک دیدیم ،دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اس نقار خانے میں کبھی کبھار سپریم کورٹ سے ’’سوموٹو ‘‘ کی صورت میں نعرہ مستانہ بلند ہوتاہے اور اس کے نتیجے میں بہت سوں کا کتھار س ہوجاتاہے اور بس کوئی بھی تو اس جانب توجہ نہیں دے رہا۔ حالات خراب سے خراب تر کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مذہب ، مذہبی اقدار ،معاشرتی اقدار کاقلع قمع کیاجارہاہے معاشرہ دن بہ دن زوال اور انحطاط کی جانب رواں دواں ہے ، اور یہ زوال ایسا ہے کہ کوئی اس کو روکنے والا اور ٹوکنے نہیں ہے ،کوئی جو بڑھ کر اس زوال کو روکے جو ہمارے رگ و ریشے میں زہر کی طرح سرایت کررہاہے ۔اس ضمن میں مستقل جدوجہد اور لائحہ عمل کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش کوئی اس ماہ مقدس میں اس جانب متوجہ ہوجائے ،کاش!

0 comments:

Post a Comment