چوہدری محمد اسلم سلیمی آج کل جماعت کے نائب امیر ہیں، اس سے قبل وہ جماعت کے قیم رہے اور مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ وابستگی رہی، سید مودودیؒ کے لٹریچر نے جمعیت اور جماعت کے قریب کیا۔ سیدؒ کے ساتھ ملاقاتیں رہیں۔ جماعت میں آئے تو جماعت کے ہی ہو گئے اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سید مودودیؒ کے قریبی ساتھی رہے، میاں طفیل محمدؒ اور قاضی حسین احمد کے بعد موجودہ امیر جماعت سید منور حسن کے بھی معتمد ساتھی ہیں۔ اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ نوجوانی میں اقامت دین کی اس تحریک سے وابستہ ہوئے۔ ان کی ذاتی زندگی، جماعتی جدجہد اور سید موودیؒ کے ساتھ تعلق پر مبنی گفتگو آپ کی نذر ہے۔
س: اپنے ابتدائی حالاتِ زندگی کے بارے میں بتایئے۔ بچپن کہاں اور کیسے گزرا۔ اپنی ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی۔ نوجوانی کا زمانہ کیسے گزارا؟ کچھ یادیں کچھ باتیں؟
ج: میری تاریخ پیدائش 30 جون 1933ء ہے۔ میرے والد مرحوم برج کلاں تحصیل قصور ضلع لاہور کے رہائشی زمیندار تھے ۔ اس گاؤں کے علاوہ قریبی دوتین دیہات میں بھی وہ زرعی اراضی کے مالک تھے۔ میری والدہ مرحومہ ایک با عمل دیندار خاتون تھیں۔ والدہ کی اچھی اور اسلامی تربیت سے بچپن سے ہی دین سے شغف رہااور زمینداروں کے بچوں میں ہونے والی خرابیوں سے محفوظ رہا۔ گاؤں میں لوئر مڈل سکول موجود تھا۔ پانچویں جماعت تک تعلیم اپنے گاؤں کے سکول میں حاصل کی ۔ اسی دوران میں قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم اپنی والدہ مرحومہ اور ایک اہل حدیث بزرگ مولوی عبداللہ مرحوم سے حاصل کرلی تھی ۔ بچپن سے ہی الحمدللہ نماز ، روزے کا پابند تھا۔
گاؤں میں پانچویں جماعت پاس کرلینے کے بعد مجھے گورنمنٹ ہائی سکول قصور میں داخل کرادیا گیا۔ میری رہائش بورڈنگ ہاؤس میں تھی۔ اُس سکول میں آٹھویں جماعت میں وظیفہ کا امتحان دیا اور میرا وظیفہ لگ گیاتھا جو نویں دسویں کی تعلیم تک دوسال تک ملتا رہا۔ میٹرک کا امتحان 1949ء میں اچھے نمبروں کے ساتھ فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا ، 1951ء گورنمنٹ کالج لاہور سے یونیورسٹی کے انٹرمیڈیٹ امتحان میں کامیاب ہوا۔ مگر بعض وجوہ کی بناء پر تعلیم چھوڑنی پڑی ۔ اس کے بعد پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور 1955ء سے 1957ء تک پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں داخل ہوکر ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا ۔ اس طرح نوجوانی کا زمانہ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گزرا۔ گورنمنٹ کالج کی تعلیم کے دوران میں نے سول ڈیفنس کی تربیت بھی حاصل کی اور اس ٹریننگ کے آخر میں 22بور کی رائفل سے نشانہ بازی کے ٹیسٹ میں 65میں سے 53نمبر حاصل کیے تھے۔ کالج میں ایمبولینس کلب کا ممبر بھی رہا اور بیڈمنٹن بھی کھیلتا رہاتھا۔
س: آپ جماعت میں کب، کیوں اور کیسے آئے؟
ج: میں جماعت کارکن تو جنوری 1963ء میں بناتھا۔ میں نے درخواست رکنیت 1962ء میں جماعت پر پابندی ختم ہونے اور جماعت کی بحالی کے چند دنوں کے بعد دے دی تھی ۔ لیکن میں جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ 1955ء سے کرچکاتھا جب میں اپنی لاء کالج کی تعلیم کے دوران میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہواتھا۔
س: جماعت میں آنے کے بعد آپ کا اپنے خاندان، عزیز و اقارب سے میل جول اور تعلق کیسا رہا؟ کیا آپ کے خاندان کا کوئی فرد جماعت میں آیا؟ جماعت بارے آپ کے خاندان کے افراد کی رائے و تاثرات؟
ج: جماعت میں آنے کے بعد میرا اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کے ساتھ تعلق حسب سابق اچھا رہا۔ الحمدللہ صلۂ رحمی کی اہمیت کو سمجھتاہوں اور سب رشتہ داروں سے اچھا تعلق رکھتاہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ مجھے اپنے خاندان کی طرف سے جماعت میں شامل ہونے کے موقع پر اور بعد میں 1966ء میں جماعت اسلامی مغربی پاکستان کے قیم کے طور پر مرکز میں ہمہ وقتی کام کرنے کے موقع پر کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ میری اہلیہ اور میری ایک بیٹی جماعت کی رکن ہیں ۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا احمد فرحان بھی جماعت کا رکن بن گیاہے۔ دوسرے دو بیٹے بھی الحمدللہ نظریاتی طور پر تحریک سے وابستہ ہیں۔
میری ایک ہمشیرہ اپنی زکوٰۃ میں سے کچھ رقم جماعت کے مقامی ذمہ دار کو دیتی رہی ہیں۔ میرے خاندان کے کئی افراد جماعت کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔
س: کس شخصیت نے متاثر کیا؟ مولانا مودودیؒ کی کس کتاب نے زیادہ متاثر کیا کیوں اور کتاب بارے تاثرات؟
ج: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ کی شخصیت نے بہت متاثر کیا۔ میاں طفیل محمد ؒ کی سادگی ،اخلاص اور جماعت کے لیے قربانیوں نے بھی متاثر کیا تھا۔ علاوہ ازیں ہمارے علاقے کے ایک بنیادی رکن چوہدری عبدالغنی مرحوم بھی مثالی ، مخلص اور باصلاحیت ساتھی تھے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتب دینیات ،خطبات ، شہادت حق ، اسلامی ریاست ،الجہاد فی الاسلام ،ہدایات ،خلافت وملوکیت اور سب سے بڑھ کر تفہیم القرآن نے بہت متاثر کیا تھا ، یہ سب کتابیں اور دوسری تمام کتابیں اور تفہیم القرآن مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے تبحرعلمی ، قرآن و سنت کے گہرے مطالعہ اور جدید ذہن کو متاثر کرنے والی بے پناہ صلاحیت کی شاہکار ہیں۔
س: کیا آپ اسلامی جمعیت طلبہ میں رہے؟ جمعیت میں کیسے آئے؟ کیا کھویا اور کیا پایا؟ کوئی خاص تاثر یا واقعہ؟
ج: میں 1955ء میں لاء کالج میں تعلیم کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوا تھا۔ میری فطرت سلیم نے مجھے جمعیت میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کیا ۔ جمعیت میں شامل ہو کر میں نے تنظیم کی اہمیت اور ہفتہ وار اجتماعات میں شریک ہو کر دین کو شعوری طور پر سمجھا اور اس پر عمل کرنے کی تربیت حاصل کی ۔ پنجاب یونیورسٹی کے سینٹ ہال کے عقب میں واقع چھوٹی سی مسجد میں ہمارے ہفتہ وار اجتماعات ہوتے تھے۔ اس میں درس قرآن کے علاوہ دوسرے مفید پروگرامات ہوتے تھے ۔ ان سے معلومات میں اضافہ ہوا۔ اچھے اور مخلص ساتھیوں کے ساتھ عمر بھر کے لیے دوستانہ تعلقات قائم ہوئے جو اب تک برادرانہ تعلقات میں ڈھل چکے ہیں۔ اسی زمانہ سے پروفیسر محمد امین جاوید مرحوم ،پروفیسر عبدالحمید ڈار ،خواجہ ذکاء الدین ،جسٹس (ر) عبدالحفیظ چیمہ صاحب اور کئی اور مخلص ساتھیوں کے ساتھ برادرنہ تعلقات قائم ہوئے اور ان حضرات سے بہت کچھ سیکھاہے ۔ کھویا تو کچھ بھی نہیں ۔ بہت کچھ پایا ہے۔
س: کیا آپ کی مولانا مودودیؒ سے کبھی ملاقات ہوئی؟ اگر ہوئی تو ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی؟ مولانا مودودیؒ کی پہلی تقریر جو سنی؟ تاثرات کیارہے؟
ج: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ سے میری پہلی ملاقات لاء کالج کی تعلیم کے زمانے میں 1956ء میں ہوئی تھی ۔ لاء کالج سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں اسلامی جمعیت طلبہ کا پینل پہلی مرتبہ کامیاب ہواتھا۔ یونین کے ذمہ داران نے طے کیا تھاکہ اسلامی قانون کے مآخذکے موضوع پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا لیکچر کالج کے ہال میں کرایا جائے ۔ اس مقصد کے لیے مولانا کی خدمت میں لا ء کالج کی یونین اور اسلامی جمعیت طلبہ کا جو وفد حاضر ہواتھا اس میں میں بھی شامل تھا۔ ہم نے مولانا کی خدمت میں حاضر ہو کر لیکچر دینے کی درخواست کی جو حضرت مولانا ؒ نے بکمال شفقت منظور فرمالی ۔ مولاناؒ نے پوچھا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں کہ میں کس موضوع پر تقریر کروں ۔ ہم نے عرض کیا کہ اسلامی قانون کے مآخذ میں قرآن مجیدکے بعد سنت کی اہمیت پر اظہار خیال فرمائیں۔ نیز اس سوال کا بھی جواب وضاحت کے ساتھ دیں کہ آیا اسلامی قانون آج کے دور میں نافذالعمل ہوسکتاہے خاص طور پر اسلام کے فوجداری قوانین پاکستان میں نافذ ہوسکتے ہیں ؟
اس موضوع پر لاء کالج میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پہلی تقریر سنی ۔ ہم نے ان کی خدمت میں اپنے جس اشکال کا ذکر کیاتھااس کا بالوضاحت مدلل جواب انہوں نے اپنی اس تقریر میں دیاتھا۔ انہوں نے سنت کی اہمیت واضح کی اور ٹھوس دلائل کے ساتھ پاکستان میں اسلامی قوانین کے قابلِ نفاذ ہونے کی وضاحت کی ۔ مولاناؒ نے اپنی تقریر مقررہ وقت میں مکمل کرلی اور اس کے بعد سوالات کے اطمینان بخش جوابات بھی دیئے ۔ لاء کالج کے پرنسپل ،اساتذہ کرام ،وکلاء حضرات اور تمام طلبہ اس تقریر سے بہت متاثر ہوئے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے دوسرے شعبوں کے طلبہ بھی تقریر سننے آئے تھے اور ان میں سے بہت سے لوگ یہ برملا اظہار کرتے رہے کہ پہلی مرتبہ ایک مولوی کو دیئے گئے موضوع پر اور موضوع کے عین مطابق اظہار خیال کرتے ہوئے سنا اور سوالات کے جوابات بھی نہایت عمدگی کے ساتھ دیئے ہیں۔ اس تقریر کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے اور کئی لوگوں کے سنت کے مآخذ قانون ہونے اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے سلسلے میں شبہات دورہوئے اور وہ مطمئن ہوگئے تھے ۔
س: جماعتی نظام بارے آپ کی رائے اور خیال؟ جماعت اسلامی کی کچھ درخشندہ روایات بارے بھی بتایئے؟
ج: جماعتی نظام کے بارے میں میرا خیال ہے کہ جماعت کا نظام شورائی ہے اور ہر جگہ پر اہم فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں اور تمام اُمور مشاورت سے چلائے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی درخشندہ روایات تو بے شمار ہیں ۔ چند ایک کا ذکر کردیتاہوں ! ۱۔جماعت ایک اصولی نظریاتی جماعت ہے۔ اس میں قیادت کا منصب موروثی نہیں ہوتابلکہ ارکان جماعت مقرر ہ مدت کے بعد باقاعدگی سے اپنی آزادانہ مرضی اور دیانتدارانہ رائے کے ساتھ امیرجماعت منتخب کرتے ہیں ۔ امیرکے علاوہ مجلس شوریٰ کے ارکان کو بھی ارکان جماعت منتخب کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی میں کسی شخص کے مرتبے کا تعین اس کے حسب نسب ،خاندانی وجاہت یا شہرت و ناموری یا علمی اسناد یااس کے مادی حالات یعنی دولت وثروت کے لحاظ سے نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھا جاتاہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کتنا گہرا اور مضبوط تعلق رکھتاہے اور وہ دین کی اقامت کی جدوجہد میں کس قدر نفسی ، جسمانی صلاحیتوں اور مال کی قربانی کرتاہے۔ وہ اللہ تعالیٰ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کا کس قدر پابند ہے ۔ دین کے فہم اور اس کے عمل میں کس قدر بڑھا ہواہے اور سب سے بڑھ کر تحریک اسلامی کے کام کو چلانے کی کس قدر اہلیت رکھتاہے۔
۲۔ جماعت کی دوسری درخشندہ روایت اس کی خدمت خلق کے مختلف کاموں میں حسن کارکردگی ہے۔ جماعت نے مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر خدمت خلق کے اس کام کی ابتدا قیام پاکستان کے فوراً بعد لاکھوں مہاجرین کے کیمپوں سے کردی تھی ۔ آفات ارضی و سماوی کے مواقع پر مصیبت زدہ بھائیوں کی طبی امداد اور بحالی کے سلسلے میں جان جوکھوں میں ڈال کر جماعت کے لاکھوں مخلص ، دیانتدار ، محنتی اور جفاکش کارکن کروڑوں روپے کے خرچ سے ہر طرح کی خدمت کا جو کارنامہ انجام دیتے ہیں ، اس کا اعتراف دوست، دشمن سب کرتے ہیں۔ ملک کے مخیر حضرات سب سے زیادہ اعتماد جماعت کے دیانت دار افراد پر کرتے ہیں اور امیرجماعت کی اپیل پر ہر آفت کے موقع پر کروڑوں روپے خدمت کے کاموں کے لیے دے دیتے ہیں۔ چرم قربانی کی فراہمی اور ان کی فروخت سے ہونے والی رقم سے یتیموں ، بیواؤں اور دوسرے مستحق لوگوں کے لیے وظائف تعلیمی اداروں ،شفاخانوں ،رمضان المبارک میں غریب مستحق افرادکے لیے آٹا، گھی وغیرہ کی فراہمی کے علاوہ غریب خواتین کو دستکاری ،سلائی کڑھائی کے مراکز کے قیام اور ان کو چلانے پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین کے خدمت خلق کے مراکز سے مستحق بچیوں کی شادی کے موقع پر جہیز کا سامان دیا جاتاہے ،بے سہارا خواتین کے مراکز قائم کئے گئے ہیں جہاں انہیں باعزت قیام و طعا م کے ساتھ سلائی کڑھائی یا دوسرے ہنر سکھائے جاتے ہیں اور بیٹھک سکولوں میں کچی آبادیوں اور بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا جاتاہے ۔1992ء سے الخدمت فاؤنڈیشن رجسٹرڈ ،پاکستان بھر میں خدمت انسانیت کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن گیاہے۔
۳۔ جماعت کی تیسری درخشندہ روایت اس کے بیت المال کا نظام ہے۔ ہر مقام، ضلع ، صوبہ اور مرکز میں بیت المال قائم ہے ۔ ارکان جماعت اپنی زکوٰۃ ،عشر اور صدقات کے علاوہ ماہوار اعانتیں بیت المال میں جمع کراتے ہیں۔ بیت المال کے حسابات باقاعدگی سے رکھے جاتے ہیں۔ آمدنی کی رسید کاٹی جاتی ہے اور خرچ کا واؤچر رکھا جاتاہے۔ بیت المال کے حسابات کی پڑتال ماہر آڈیٹر سے کرائی جاتی ہے اور آڈیٹر کی رپورٹ مجلس شوریٰ میں پیش کی جاتی ہے۔ جماعت کے بیت المال کا نظام منفرد حیثیت رکھتاہے جو اسے دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتاہے۔ بیت المال کی آمدنی کا معتدبہ حصہ خدمت خلق کے کاموں پر خرچ کیا جاتاہے۔
۴۔ جماعت کی چوتھی درخشندہ روایت تنقید و محاسبہ کی آزادی ہے۔ ہر رکن جماعت کو یہ دستوری حق حاصل ہے کہ وہ جماعت کے نظام پر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ارکان کے اجتماع میں تنقید کرسکتاہے اور جماعت کے ذمہ داروں کا محاسبہ کرسکتاہے۔ اسی طرح امیرجماعت یا مجلس شوریٰ کے فیصلوں پر کوئی اعتراض ہو یا وہ ان کے بارے میں کوئی سوال کرنا چاہے یا وضاحت طلب کرنا چاہے تو وہ دستور جماعت میں دیے گئے طریقے کے مطابق اعتراض کرنے یا سوال کرنے یا وضاحت طلب کرنے کا حق حاصل ہے ۔ اس سلسلے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے کراچی کے اجتماع عام میں اپنی تقریر میں جو ’’ہدایات ‘‘ نامی پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوچکی ہے ، تنقیدو محاسبہ کی افادیت اور اس کے آداب وغیرہ کے ضوابط بیان کردیئے ہیں۔
۵۔ جماعت کی پانچویں درخشندہ روایت خواتین کی الگ تنظیم ہے۔ حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان کی ایک قیمہ ہوتی ہے۔ اس کی مدد اور مشورے کے لیے خواتین کی مجلس شوریٰ ہوتی ہے۔ صوبوں، اضلاع اور مقامات پر خواتین کی تنظیم قائم ہے ۔ ہر جگہ خواتین کے اندر درس و تدریس اور جماعت کی دعوت کو خواتین کے اندر پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نیز فلاح خاندان کے مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ جامعات المحصنات قائم کرکے ملک بھر کے اہم شہروں میں میٹرک پاس بچیوں کی قرآن و حدیث اور فقہ کی معیاری تعلیم کے ساتھ انہیں ایف اے ، بی اے کے امتحانات کی تیاری بھی کرائی جاتی ہے۔ طالبات کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنے اور تقریر کرنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
جماعت کے حلقہ خواتین کی ذمہ دارخواتین نے میونسپل کارپوریشنوں ،ضلعی کونسلوں ،صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینٹ میں خواتین کی نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے حیادار خواتین کی نمائندگی کی نمایاں مثالیں قائم کی ہیں ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں خواتین کے حقوق اور اسلامی معاشرے میں ان کے تعمیرکردار کے بارے میں نہایت مؤثر آواز اٹھائی ہے۔
س:1957ء کے بعد 1993ء میں جماعت اسلامی جن حالات و واقعات سے گزری، جماعت کے چند بڑے لوگ الگ ہوئے، اس دور بارے کچھ بتایئے؟
ج: 1957ء میں ماچھی گوٹھ ضلع رحیم یارخان میں منعقد ہونے والے اجتماع ارکان میں امیرجماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے اختلاف کرنے والے حضرات کو اپنی اپنی آراء پیش کرنے کا پورا موقع دیا گیا۔ ان میں سے کئی حضرات نے انتخابات میں حصہ لینے کے لائحہ عمل سے اختلاف کیا۔ اس کے بعد مولانا مودودی ؒ نے قیام جماعت سے لے کر اُس وقت تک جماعت کی طے شدہ پالیسیوں کے تسلسل کی صورت حال نہایت تفصیل کے ساتھ پیش کی ۔ اور اس کے بعد ایک پالیسی قرار داد پیش کی ۔ پھر ارکان جماعت کو موقع دیاگیا کہ وہ قرار داد کے حق میں یا اس کے خلاف اپنی بے لاگ آراء کا اظہار کریں۔ ارکان جماعت نے 98فیصد کی بھاری اکثریت سے اُس قرارداد کو منظور کرلیا جو مولانا مودودیؒ نے پیش کی ۔ اس قرار داد کا خلاصہ یہ ہے :’’جماعت اسلامی اپنے دستور کی رُو سے اپنے پیش نظر انقلاب کے لیے جمہوری و آئینی طریقوں پر کام کرنے کی پابند ہے ، اور پاکستان میں اس اصلاح و انقلاب کے عملاً رونما ہونے کا ایک ہی آئینی راستہ ہے ، اور وہ ہے انتخابات کا راستہ، اس لیے جماعت اسلامی ملک کے انتخابات سے لا تعلق تو بہرحال نہیں رہ سکتی ۔ خواہ وہ ان میں بلاواسطہ حصہ لے یا بالواسطہ یا دونوں طرح ۔۔۔۔۔۔‘‘اس طرح ارکان جماعت نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پالیسیوں اور انتخابات میں حصہ لینے کے لائحہ عمل کے حق میں اپنے پورے اعتماد کااظہار کردیا اور اختلاف کرنے والے حضرات کے اعتراضات کو مسترد کردیا ۔ [اختلاف کرنے والے پندرہ حضرات نہ تو کوئی متبادل جماعت بنا سکے اور نہ اُن کے اندر باہمی اتفاق و اتحاد قائم رہا اور نہ ہی وہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کسی اور طریق کار پر متفق ہوسکے۔] افسوس ہے کہ جماعت سے الگ ہو کر وہ اپنے اُس عہد کو بھول گئے جو جماعت کی رکنیت اختیار کرتے وقت انہوں نے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کیاتھا۔
1993ء میں جو حضرات جماعت سے الگ ہوئے ان کا اختلاف زیادہ قاضی حسین احمد صاحب کے عوامی سٹائل اور پاکستان اسلامی فرنٹ کے قیام سے تھا۔ ان میں سے بعض حضرات نے اس خیال کا اظہار کیا کہ قاضی حسین احمد صاحب نے اسلامی جمہوری اتحاد سے الگ ہو کر غلطی کی ہے حالانکہ یہ فیصلے مرکزی مجلس شوریٰ نے کئے تھے ۔ الگ ہونے والے حضرات کے خیال میں اتحاد کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینا جماعت کے لیے مفید ہوسکتاہے۔ اگرچہ علیحدہ ہونے والے حضرات نے تحریک اسلامی کے نام سے ایک الگ جماعت قائم کرلی لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد اس نئی جماعت کے اندر پھر شخصی اختلاف پیدا ہوگیا اور یہ نئی تحریک اسلامی دوحصوں میں بٹ گئی۔
س: آپ نے مولانا مودودیؒ کا زمانۂ امارت پایا پھر میاں طفیل محمدؒ اور قاضی حسین احمد کا اور اب سید منور حسن کا دورِ امارت بھی، آپ ان ادوار کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ج: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مجھے 1966ء میں مرکز جماعت میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی امارت کے زمانے میں جماعت اسلامی مغربی پاکستان کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کاموقع مل گیاتھا۔ اُن کے جانشین میاں طفیل محمد مرحوم و مغفور کے ساتھ ابتدائی تین چار سال تک جماعت اسلامی مغربی پاکستان کے قیم کی حیثیت سے اور اس کے بعد نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ محترم قاضی حسین احمد صاحب جب 1987ء میں امیرجماعت بنے تو مجھے قیم جماعت کی حیثیت سے 1992ء تک اور پھر نائب امیرجماعت کی حیثیت سے خدمت کرنے کا موقع ملا اور اب سیدمنورحسن صاحب کے ساتھ نائب امیرجماعت کی حیثیت سے کام کررہاہوں۔ میرے خیال میں یہ تمام حضرات جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ کے مشورے سے اہم اُمور کے فیصلے کرتے رہے ہیں اور جماعت کی پالیسیاں مرتب کرتے رہے ہیں۔ البتہ ہر شخص کا اپنااپنا سٹائل اور مزاج ہوتاہے جو ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتا ہے ۔ ان تمام حضرات نے نہایت اخلاص کے ساتھ جماعت کی دعوت کو پھیلانے، تنظیم کو وسعت اور استحکام دینے ،جماعت کو پاکستان کی اہم جماعت بنانے کی بھرپور کوشش کی ۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کی جہود کو شرفِ قبولیت بخشے اور بھرپور اجر عطا فرمائے ،آمین!
س: 1963ء کے اجتماع میں شریک ہوئے؟ اس بارے کچھ بتایئے؟
ج: 1963ء کے اجتماع میں بحیثیت رکن جماعت شامل ہواتھا۔ میں قصور سے اپنی اہلیہ اور ایک بیٹی کو بھی اپنے ساتھ لایا تھا۔ لاؤڈسپیکر کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے مکبروں کے ذریعے آواز ہزاروں شرکاء تک پہنچائی جاتی تھی ۔ اجتماع میں حکومتی غنڈوں کی شرانگیزی اور گولیاں چلانے کے وقت مولانامودودیؒ نے جرأت سے کام لیا اور کارکنوں کو بھی پُرامن رہنے اور مشتعل نہ ہونے کی ہدایت کی ۔ اللہ بخش شہید کی شہادت پر بھی صبر و ثبات کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس کے بعد تبلیغی وفودپورے شہر میں نکالے گئے ۔ میں نے بھی ایک وفد کے ساتھ قلعہ گوجرسنگھ کے علاقہ میں ملاقاتیں کیں ، جماعت کی دعوت پیش کی اور پمفلٹ تقسیم کئے تھے ۔ لاہور شہر کے ہزاروں افراد تک جماعت کی دعوت پیش کی گئی اور ہزاروں افراد کو متفق کے فارم پُر کروا کر جماعت کے ساتھ شامل کیاگیا۔
ج: میری تاریخ پیدائش 30 جون 1933ء ہے۔ میرے والد مرحوم برج کلاں تحصیل قصور ضلع لاہور کے رہائشی زمیندار تھے ۔ اس گاؤں کے علاوہ قریبی دوتین دیہات میں بھی وہ زرعی اراضی کے مالک تھے۔ میری والدہ مرحومہ ایک با عمل دیندار خاتون تھیں۔ والدہ کی اچھی اور اسلامی تربیت سے بچپن سے ہی دین سے شغف رہااور زمینداروں کے بچوں میں ہونے والی خرابیوں سے محفوظ رہا۔ گاؤں میں لوئر مڈل سکول موجود تھا۔ پانچویں جماعت تک تعلیم اپنے گاؤں کے سکول میں حاصل کی ۔ اسی دوران میں قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم اپنی والدہ مرحومہ اور ایک اہل حدیث بزرگ مولوی عبداللہ مرحوم سے حاصل کرلی تھی ۔ بچپن سے ہی الحمدللہ نماز ، روزے کا پابند تھا۔
گاؤں میں پانچویں جماعت پاس کرلینے کے بعد مجھے گورنمنٹ ہائی سکول قصور میں داخل کرادیا گیا۔ میری رہائش بورڈنگ ہاؤس میں تھی۔ اُس سکول میں آٹھویں جماعت میں وظیفہ کا امتحان دیا اور میرا وظیفہ لگ گیاتھا جو نویں دسویں کی تعلیم تک دوسال تک ملتا رہا۔ میٹرک کا امتحان 1949ء میں اچھے نمبروں کے ساتھ فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا ، 1951ء گورنمنٹ کالج لاہور سے یونیورسٹی کے انٹرمیڈیٹ امتحان میں کامیاب ہوا۔ مگر بعض وجوہ کی بناء پر تعلیم چھوڑنی پڑی ۔ اس کے بعد پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور 1955ء سے 1957ء تک پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں داخل ہوکر ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا ۔ اس طرح نوجوانی کا زمانہ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گزرا۔ گورنمنٹ کالج کی تعلیم کے دوران میں نے سول ڈیفنس کی تربیت بھی حاصل کی اور اس ٹریننگ کے آخر میں 22بور کی رائفل سے نشانہ بازی کے ٹیسٹ میں 65میں سے 53نمبر حاصل کیے تھے۔ کالج میں ایمبولینس کلب کا ممبر بھی رہا اور بیڈمنٹن بھی کھیلتا رہاتھا۔
س: آپ جماعت میں کب، کیوں اور کیسے آئے؟
ج: میں جماعت کارکن تو جنوری 1963ء میں بناتھا۔ میں نے درخواست رکنیت 1962ء میں جماعت پر پابندی ختم ہونے اور جماعت کی بحالی کے چند دنوں کے بعد دے دی تھی ۔ لیکن میں جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ 1955ء سے کرچکاتھا جب میں اپنی لاء کالج کی تعلیم کے دوران میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہواتھا۔
س: جماعت میں آنے کے بعد آپ کا اپنے خاندان، عزیز و اقارب سے میل جول اور تعلق کیسا رہا؟ کیا آپ کے خاندان کا کوئی فرد جماعت میں آیا؟ جماعت بارے آپ کے خاندان کے افراد کی رائے و تاثرات؟
ج: جماعت میں آنے کے بعد میرا اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کے ساتھ تعلق حسب سابق اچھا رہا۔ الحمدللہ صلۂ رحمی کی اہمیت کو سمجھتاہوں اور سب رشتہ داروں سے اچھا تعلق رکھتاہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ مجھے اپنے خاندان کی طرف سے جماعت میں شامل ہونے کے موقع پر اور بعد میں 1966ء میں جماعت اسلامی مغربی پاکستان کے قیم کے طور پر مرکز میں ہمہ وقتی کام کرنے کے موقع پر کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ میری اہلیہ اور میری ایک بیٹی جماعت کی رکن ہیں ۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا احمد فرحان بھی جماعت کا رکن بن گیاہے۔ دوسرے دو بیٹے بھی الحمدللہ نظریاتی طور پر تحریک سے وابستہ ہیں۔
میری ایک ہمشیرہ اپنی زکوٰۃ میں سے کچھ رقم جماعت کے مقامی ذمہ دار کو دیتی رہی ہیں۔ میرے خاندان کے کئی افراد جماعت کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔
س: کس شخصیت نے متاثر کیا؟ مولانا مودودیؒ کی کس کتاب نے زیادہ متاثر کیا کیوں اور کتاب بارے تاثرات؟
ج: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ کی شخصیت نے بہت متاثر کیا۔ میاں طفیل محمد ؒ کی سادگی ،اخلاص اور جماعت کے لیے قربانیوں نے بھی متاثر کیا تھا۔ علاوہ ازیں ہمارے علاقے کے ایک بنیادی رکن چوہدری عبدالغنی مرحوم بھی مثالی ، مخلص اور باصلاحیت ساتھی تھے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتب دینیات ،خطبات ، شہادت حق ، اسلامی ریاست ،الجہاد فی الاسلام ،ہدایات ،خلافت وملوکیت اور سب سے بڑھ کر تفہیم القرآن نے بہت متاثر کیا تھا ، یہ سب کتابیں اور دوسری تمام کتابیں اور تفہیم القرآن مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے تبحرعلمی ، قرآن و سنت کے گہرے مطالعہ اور جدید ذہن کو متاثر کرنے والی بے پناہ صلاحیت کی شاہکار ہیں۔
س: کیا آپ اسلامی جمعیت طلبہ میں رہے؟ جمعیت میں کیسے آئے؟ کیا کھویا اور کیا پایا؟ کوئی خاص تاثر یا واقعہ؟
ج: میں 1955ء میں لاء کالج میں تعلیم کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوا تھا۔ میری فطرت سلیم نے مجھے جمعیت میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کیا ۔ جمعیت میں شامل ہو کر میں نے تنظیم کی اہمیت اور ہفتہ وار اجتماعات میں شریک ہو کر دین کو شعوری طور پر سمجھا اور اس پر عمل کرنے کی تربیت حاصل کی ۔ پنجاب یونیورسٹی کے سینٹ ہال کے عقب میں واقع چھوٹی سی مسجد میں ہمارے ہفتہ وار اجتماعات ہوتے تھے۔ اس میں درس قرآن کے علاوہ دوسرے مفید پروگرامات ہوتے تھے ۔ ان سے معلومات میں اضافہ ہوا۔ اچھے اور مخلص ساتھیوں کے ساتھ عمر بھر کے لیے دوستانہ تعلقات قائم ہوئے جو اب تک برادرانہ تعلقات میں ڈھل چکے ہیں۔ اسی زمانہ سے پروفیسر محمد امین جاوید مرحوم ،پروفیسر عبدالحمید ڈار ،خواجہ ذکاء الدین ،جسٹس (ر) عبدالحفیظ چیمہ صاحب اور کئی اور مخلص ساتھیوں کے ساتھ برادرنہ تعلقات قائم ہوئے اور ان حضرات سے بہت کچھ سیکھاہے ۔ کھویا تو کچھ بھی نہیں ۔ بہت کچھ پایا ہے۔
س: کیا آپ کی مولانا مودودیؒ سے کبھی ملاقات ہوئی؟ اگر ہوئی تو ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی؟ مولانا مودودیؒ کی پہلی تقریر جو سنی؟ تاثرات کیارہے؟
ج: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ سے میری پہلی ملاقات لاء کالج کی تعلیم کے زمانے میں 1956ء میں ہوئی تھی ۔ لاء کالج سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں اسلامی جمعیت طلبہ کا پینل پہلی مرتبہ کامیاب ہواتھا۔ یونین کے ذمہ داران نے طے کیا تھاکہ اسلامی قانون کے مآخذکے موضوع پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا لیکچر کالج کے ہال میں کرایا جائے ۔ اس مقصد کے لیے مولانا کی خدمت میں لا ء کالج کی یونین اور اسلامی جمعیت طلبہ کا جو وفد حاضر ہواتھا اس میں میں بھی شامل تھا۔ ہم نے مولانا کی خدمت میں حاضر ہو کر لیکچر دینے کی درخواست کی جو حضرت مولانا ؒ نے بکمال شفقت منظور فرمالی ۔ مولاناؒ نے پوچھا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں کہ میں کس موضوع پر تقریر کروں ۔ ہم نے عرض کیا کہ اسلامی قانون کے مآخذ میں قرآن مجیدکے بعد سنت کی اہمیت پر اظہار خیال فرمائیں۔ نیز اس سوال کا بھی جواب وضاحت کے ساتھ دیں کہ آیا اسلامی قانون آج کے دور میں نافذالعمل ہوسکتاہے خاص طور پر اسلام کے فوجداری قوانین پاکستان میں نافذ ہوسکتے ہیں ؟
اس موضوع پر لاء کالج میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پہلی تقریر سنی ۔ ہم نے ان کی خدمت میں اپنے جس اشکال کا ذکر کیاتھااس کا بالوضاحت مدلل جواب انہوں نے اپنی اس تقریر میں دیاتھا۔ انہوں نے سنت کی اہمیت واضح کی اور ٹھوس دلائل کے ساتھ پاکستان میں اسلامی قوانین کے قابلِ نفاذ ہونے کی وضاحت کی ۔ مولاناؒ نے اپنی تقریر مقررہ وقت میں مکمل کرلی اور اس کے بعد سوالات کے اطمینان بخش جوابات بھی دیئے ۔ لاء کالج کے پرنسپل ،اساتذہ کرام ،وکلاء حضرات اور تمام طلبہ اس تقریر سے بہت متاثر ہوئے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے دوسرے شعبوں کے طلبہ بھی تقریر سننے آئے تھے اور ان میں سے بہت سے لوگ یہ برملا اظہار کرتے رہے کہ پہلی مرتبہ ایک مولوی کو دیئے گئے موضوع پر اور موضوع کے عین مطابق اظہار خیال کرتے ہوئے سنا اور سوالات کے جوابات بھی نہایت عمدگی کے ساتھ دیئے ہیں۔ اس تقریر کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے اور کئی لوگوں کے سنت کے مآخذ قانون ہونے اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے سلسلے میں شبہات دورہوئے اور وہ مطمئن ہوگئے تھے ۔
س: جماعتی نظام بارے آپ کی رائے اور خیال؟ جماعت اسلامی کی کچھ درخشندہ روایات بارے بھی بتایئے؟
ج: جماعتی نظام کے بارے میں میرا خیال ہے کہ جماعت کا نظام شورائی ہے اور ہر جگہ پر اہم فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں اور تمام اُمور مشاورت سے چلائے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی درخشندہ روایات تو بے شمار ہیں ۔ چند ایک کا ذکر کردیتاہوں ! ۱۔جماعت ایک اصولی نظریاتی جماعت ہے۔ اس میں قیادت کا منصب موروثی نہیں ہوتابلکہ ارکان جماعت مقرر ہ مدت کے بعد باقاعدگی سے اپنی آزادانہ مرضی اور دیانتدارانہ رائے کے ساتھ امیرجماعت منتخب کرتے ہیں ۔ امیرکے علاوہ مجلس شوریٰ کے ارکان کو بھی ارکان جماعت منتخب کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی میں کسی شخص کے مرتبے کا تعین اس کے حسب نسب ،خاندانی وجاہت یا شہرت و ناموری یا علمی اسناد یااس کے مادی حالات یعنی دولت وثروت کے لحاظ سے نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھا جاتاہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کتنا گہرا اور مضبوط تعلق رکھتاہے اور وہ دین کی اقامت کی جدوجہد میں کس قدر نفسی ، جسمانی صلاحیتوں اور مال کی قربانی کرتاہے۔ وہ اللہ تعالیٰ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کا کس قدر پابند ہے ۔ دین کے فہم اور اس کے عمل میں کس قدر بڑھا ہواہے اور سب سے بڑھ کر تحریک اسلامی کے کام کو چلانے کی کس قدر اہلیت رکھتاہے۔
۲۔ جماعت کی دوسری درخشندہ روایت اس کی خدمت خلق کے مختلف کاموں میں حسن کارکردگی ہے۔ جماعت نے مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر خدمت خلق کے اس کام کی ابتدا قیام پاکستان کے فوراً بعد لاکھوں مہاجرین کے کیمپوں سے کردی تھی ۔ آفات ارضی و سماوی کے مواقع پر مصیبت زدہ بھائیوں کی طبی امداد اور بحالی کے سلسلے میں جان جوکھوں میں ڈال کر جماعت کے لاکھوں مخلص ، دیانتدار ، محنتی اور جفاکش کارکن کروڑوں روپے کے خرچ سے ہر طرح کی خدمت کا جو کارنامہ انجام دیتے ہیں ، اس کا اعتراف دوست، دشمن سب کرتے ہیں۔ ملک کے مخیر حضرات سب سے زیادہ اعتماد جماعت کے دیانت دار افراد پر کرتے ہیں اور امیرجماعت کی اپیل پر ہر آفت کے موقع پر کروڑوں روپے خدمت کے کاموں کے لیے دے دیتے ہیں۔ چرم قربانی کی فراہمی اور ان کی فروخت سے ہونے والی رقم سے یتیموں ، بیواؤں اور دوسرے مستحق لوگوں کے لیے وظائف تعلیمی اداروں ،شفاخانوں ،رمضان المبارک میں غریب مستحق افرادکے لیے آٹا، گھی وغیرہ کی فراہمی کے علاوہ غریب خواتین کو دستکاری ،سلائی کڑھائی کے مراکز کے قیام اور ان کو چلانے پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین کے خدمت خلق کے مراکز سے مستحق بچیوں کی شادی کے موقع پر جہیز کا سامان دیا جاتاہے ،بے سہارا خواتین کے مراکز قائم کئے گئے ہیں جہاں انہیں باعزت قیام و طعا م کے ساتھ سلائی کڑھائی یا دوسرے ہنر سکھائے جاتے ہیں اور بیٹھک سکولوں میں کچی آبادیوں اور بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا جاتاہے ۔1992ء سے الخدمت فاؤنڈیشن رجسٹرڈ ،پاکستان بھر میں خدمت انسانیت کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن گیاہے۔
۳۔ جماعت کی تیسری درخشندہ روایت اس کے بیت المال کا نظام ہے۔ ہر مقام، ضلع ، صوبہ اور مرکز میں بیت المال قائم ہے ۔ ارکان جماعت اپنی زکوٰۃ ،عشر اور صدقات کے علاوہ ماہوار اعانتیں بیت المال میں جمع کراتے ہیں۔ بیت المال کے حسابات باقاعدگی سے رکھے جاتے ہیں۔ آمدنی کی رسید کاٹی جاتی ہے اور خرچ کا واؤچر رکھا جاتاہے۔ بیت المال کے حسابات کی پڑتال ماہر آڈیٹر سے کرائی جاتی ہے اور آڈیٹر کی رپورٹ مجلس شوریٰ میں پیش کی جاتی ہے۔ جماعت کے بیت المال کا نظام منفرد حیثیت رکھتاہے جو اسے دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتاہے۔ بیت المال کی آمدنی کا معتدبہ حصہ خدمت خلق کے کاموں پر خرچ کیا جاتاہے۔
۴۔ جماعت کی چوتھی درخشندہ روایت تنقید و محاسبہ کی آزادی ہے۔ ہر رکن جماعت کو یہ دستوری حق حاصل ہے کہ وہ جماعت کے نظام پر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ارکان کے اجتماع میں تنقید کرسکتاہے اور جماعت کے ذمہ داروں کا محاسبہ کرسکتاہے۔ اسی طرح امیرجماعت یا مجلس شوریٰ کے فیصلوں پر کوئی اعتراض ہو یا وہ ان کے بارے میں کوئی سوال کرنا چاہے یا وضاحت طلب کرنا چاہے تو وہ دستور جماعت میں دیے گئے طریقے کے مطابق اعتراض کرنے یا سوال کرنے یا وضاحت طلب کرنے کا حق حاصل ہے ۔ اس سلسلے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے کراچی کے اجتماع عام میں اپنی تقریر میں جو ’’ہدایات ‘‘ نامی پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوچکی ہے ، تنقیدو محاسبہ کی افادیت اور اس کے آداب وغیرہ کے ضوابط بیان کردیئے ہیں۔
۵۔ جماعت کی پانچویں درخشندہ روایت خواتین کی الگ تنظیم ہے۔ حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان کی ایک قیمہ ہوتی ہے۔ اس کی مدد اور مشورے کے لیے خواتین کی مجلس شوریٰ ہوتی ہے۔ صوبوں، اضلاع اور مقامات پر خواتین کی تنظیم قائم ہے ۔ ہر جگہ خواتین کے اندر درس و تدریس اور جماعت کی دعوت کو خواتین کے اندر پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نیز فلاح خاندان کے مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ جامعات المحصنات قائم کرکے ملک بھر کے اہم شہروں میں میٹرک پاس بچیوں کی قرآن و حدیث اور فقہ کی معیاری تعلیم کے ساتھ انہیں ایف اے ، بی اے کے امتحانات کی تیاری بھی کرائی جاتی ہے۔ طالبات کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنے اور تقریر کرنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
جماعت کے حلقہ خواتین کی ذمہ دارخواتین نے میونسپل کارپوریشنوں ،ضلعی کونسلوں ،صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینٹ میں خواتین کی نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے حیادار خواتین کی نمائندگی کی نمایاں مثالیں قائم کی ہیں ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں خواتین کے حقوق اور اسلامی معاشرے میں ان کے تعمیرکردار کے بارے میں نہایت مؤثر آواز اٹھائی ہے۔
س:1957ء کے بعد 1993ء میں جماعت اسلامی جن حالات و واقعات سے گزری، جماعت کے چند بڑے لوگ الگ ہوئے، اس دور بارے کچھ بتایئے؟
ج: 1957ء میں ماچھی گوٹھ ضلع رحیم یارخان میں منعقد ہونے والے اجتماع ارکان میں امیرجماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے اختلاف کرنے والے حضرات کو اپنی اپنی آراء پیش کرنے کا پورا موقع دیا گیا۔ ان میں سے کئی حضرات نے انتخابات میں حصہ لینے کے لائحہ عمل سے اختلاف کیا۔ اس کے بعد مولانا مودودی ؒ نے قیام جماعت سے لے کر اُس وقت تک جماعت کی طے شدہ پالیسیوں کے تسلسل کی صورت حال نہایت تفصیل کے ساتھ پیش کی ۔ اور اس کے بعد ایک پالیسی قرار داد پیش کی ۔ پھر ارکان جماعت کو موقع دیاگیا کہ وہ قرار داد کے حق میں یا اس کے خلاف اپنی بے لاگ آراء کا اظہار کریں۔ ارکان جماعت نے 98فیصد کی بھاری اکثریت سے اُس قرارداد کو منظور کرلیا جو مولانا مودودیؒ نے پیش کی ۔ اس قرار داد کا خلاصہ یہ ہے :’’جماعت اسلامی اپنے دستور کی رُو سے اپنے پیش نظر انقلاب کے لیے جمہوری و آئینی طریقوں پر کام کرنے کی پابند ہے ، اور پاکستان میں اس اصلاح و انقلاب کے عملاً رونما ہونے کا ایک ہی آئینی راستہ ہے ، اور وہ ہے انتخابات کا راستہ، اس لیے جماعت اسلامی ملک کے انتخابات سے لا تعلق تو بہرحال نہیں رہ سکتی ۔ خواہ وہ ان میں بلاواسطہ حصہ لے یا بالواسطہ یا دونوں طرح ۔۔۔۔۔۔‘‘اس طرح ارکان جماعت نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پالیسیوں اور انتخابات میں حصہ لینے کے لائحہ عمل کے حق میں اپنے پورے اعتماد کااظہار کردیا اور اختلاف کرنے والے حضرات کے اعتراضات کو مسترد کردیا ۔ [اختلاف کرنے والے پندرہ حضرات نہ تو کوئی متبادل جماعت بنا سکے اور نہ اُن کے اندر باہمی اتفاق و اتحاد قائم رہا اور نہ ہی وہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کسی اور طریق کار پر متفق ہوسکے۔] افسوس ہے کہ جماعت سے الگ ہو کر وہ اپنے اُس عہد کو بھول گئے جو جماعت کی رکنیت اختیار کرتے وقت انہوں نے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کیاتھا۔
1993ء میں جو حضرات جماعت سے الگ ہوئے ان کا اختلاف زیادہ قاضی حسین احمد صاحب کے عوامی سٹائل اور پاکستان اسلامی فرنٹ کے قیام سے تھا۔ ان میں سے بعض حضرات نے اس خیال کا اظہار کیا کہ قاضی حسین احمد صاحب نے اسلامی جمہوری اتحاد سے الگ ہو کر غلطی کی ہے حالانکہ یہ فیصلے مرکزی مجلس شوریٰ نے کئے تھے ۔ الگ ہونے والے حضرات کے خیال میں اتحاد کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینا جماعت کے لیے مفید ہوسکتاہے۔ اگرچہ علیحدہ ہونے والے حضرات نے تحریک اسلامی کے نام سے ایک الگ جماعت قائم کرلی لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد اس نئی جماعت کے اندر پھر شخصی اختلاف پیدا ہوگیا اور یہ نئی تحریک اسلامی دوحصوں میں بٹ گئی۔
س: آپ نے مولانا مودودیؒ کا زمانۂ امارت پایا پھر میاں طفیل محمدؒ اور قاضی حسین احمد کا اور اب سید منور حسن کا دورِ امارت بھی، آپ ان ادوار کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ج: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مجھے 1966ء میں مرکز جماعت میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی امارت کے زمانے میں جماعت اسلامی مغربی پاکستان کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کاموقع مل گیاتھا۔ اُن کے جانشین میاں طفیل محمد مرحوم و مغفور کے ساتھ ابتدائی تین چار سال تک جماعت اسلامی مغربی پاکستان کے قیم کی حیثیت سے اور اس کے بعد نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ محترم قاضی حسین احمد صاحب جب 1987ء میں امیرجماعت بنے تو مجھے قیم جماعت کی حیثیت سے 1992ء تک اور پھر نائب امیرجماعت کی حیثیت سے خدمت کرنے کا موقع ملا اور اب سیدمنورحسن صاحب کے ساتھ نائب امیرجماعت کی حیثیت سے کام کررہاہوں۔ میرے خیال میں یہ تمام حضرات جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ کے مشورے سے اہم اُمور کے فیصلے کرتے رہے ہیں اور جماعت کی پالیسیاں مرتب کرتے رہے ہیں۔ البتہ ہر شخص کا اپنااپنا سٹائل اور مزاج ہوتاہے جو ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتا ہے ۔ ان تمام حضرات نے نہایت اخلاص کے ساتھ جماعت کی دعوت کو پھیلانے، تنظیم کو وسعت اور استحکام دینے ،جماعت کو پاکستان کی اہم جماعت بنانے کی بھرپور کوشش کی ۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کی جہود کو شرفِ قبولیت بخشے اور بھرپور اجر عطا فرمائے ،آمین!
س: 1963ء کے اجتماع میں شریک ہوئے؟ اس بارے کچھ بتایئے؟
ج: 1963ء کے اجتماع میں بحیثیت رکن جماعت شامل ہواتھا۔ میں قصور سے اپنی اہلیہ اور ایک بیٹی کو بھی اپنے ساتھ لایا تھا۔ لاؤڈسپیکر کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے مکبروں کے ذریعے آواز ہزاروں شرکاء تک پہنچائی جاتی تھی ۔ اجتماع میں حکومتی غنڈوں کی شرانگیزی اور گولیاں چلانے کے وقت مولانامودودیؒ نے جرأت سے کام لیا اور کارکنوں کو بھی پُرامن رہنے اور مشتعل نہ ہونے کی ہدایت کی ۔ اللہ بخش شہید کی شہادت پر بھی صبر و ثبات کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس کے بعد تبلیغی وفودپورے شہر میں نکالے گئے ۔ میں نے بھی ایک وفد کے ساتھ قلعہ گوجرسنگھ کے علاقہ میں ملاقاتیں کیں ، جماعت کی دعوت پیش کی اور پمفلٹ تقسیم کئے تھے ۔ لاہور شہر کے ہزاروں افراد تک جماعت کی دعوت پیش کی گئی اور ہزاروں افراد کو متفق کے فارم پُر کروا کر جماعت کے ساتھ شامل کیاگیا۔
1 comments:
v-nice
Post a Comment