سید منور بخاری ستر کی دہائی میں صوبائی نظام میں شامل ہوئے، پنجاب کے صوبائی دفتر میں ناظم دفتر، ناظم شعبہ تنظیم اور ناظم بیت المال رہے اور پھرنائب قیم صوبہ بھی۔ ایک طویل مدت جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں گزاری۔ وفاداری بشرط استواری اصل ایمان کا مصداق، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو، حلیم الطبع، انتھک جذبے، لگن اور اخلاص و مروت سے سرشار کہ جن کو کوئی دیکھے تو خدا یاد آ جائے، اپنے کام سے کام رکھنے والے متحرک، فعّال اور بیدار مغز کارکن،خانوادہ بابا فرید گنج شکر ؒ پاکپتن کے چشم و چراغ۔ جماعت میں آئے تو پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے اپنے اس انٹر ویو میں اپنی یادوں، جذبات اور احساسات کا اظہار فرمایا ہے۔
س : آپ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیے۔ بچپن کہاں گزرا، کیسے گزرا ؟ ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
ج : میرا آبائی وطن پاک پتن ہے۔وہاں بابا فرید شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کے داماد سید بدر الدین اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے اور ہر سال جمادی الاول میں وہاں بھی میلہ لگتا ہے۔میرا تعلق ان کے خاندان سے ہے۔ بچپن بالکل بے شعوری کی حالت میں گزرا۔ جب پانچ سال کا ہوا تو والد محترم نے پرائمری سکول لے جا کر داخل کرایا۔جب جماعت چہارم میں پہنچا تو والد صاحب ساری فیمیلی کو اپنے حلقہ پٹوار میں لے گئے وہاں ایک گاؤں میں پڑھتا رہا۔جب ۱۹۴۷ میں جماعت ہشتم میں پہنچا تو پاکستان بن گیا۔سکول کا ہیڈماسٹر ایک سکھ تھا۔ نامعلوم اس کا کیا حشر ہوا۔بہرحال تین چار ماہ سکول بند رہا اور ہماری فیمیلی پھر پاک پتن منتقل ہو گئی۔ گورنمنٹ ہائی سکول پاک پتن میں ۱۹۵۳ میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اتنے میں والد محترم نوکری سے ریٹائر ہو گئے۔ اسلئے میں آگے نہ پڑھ سکا۔ان دنوں پاک پتن میں کوئی کالج بھی نہیں تھا۔
س: آپ جماعت میں کیسے آئے ؟
ج: پاک پتن کے رہنے والے پروفیسر شیر محمد شاہ صاحب ۱۹۵۲ء میں ابھی پروفیسر نہیں ہوئے تھے وہ جماعت اسلامی کے ہمہ وقتی کارکن تھے مَیں اس وقت نویں کلاس میں زیر تعلیم تھا۔ ان کی باتیں سن کر جماعت میں دلچسپی ہو گئی تھی۔ ایک مرتبہ کسی نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے خلاف کوئی بات کی تومَیں شیر محمد شاہ صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ لوگ مولانا پر اعتراض کرتے ہیں تو انہوں نے اس حوالے سے تو کوئی بات نہ کی البتہ ایک پمفلٹ ’’عبادت‘‘ مجھے تھما دیا اور کہا کہ اس کو پڑھ لو۔ وہ اعتراض تومَیں بھول ہی گیا اور مزید پمفلٹ اور کتابیں لے کر پڑھتا رہا۔اس طرح جماعت سے متعارف ہوا۔ پہلے جماعت کا متفق بنا اور پھر دسمبر ۱۹۵۷ میں رکنیت منظور ہوئی۔
س: مولانا کی کس کتاب نے متاثر کیا ؟ اس بارے تاثرات؟
ج: مولانا کی کتابوں میں سے سب سے زیادہ ’’خطبات‘‘ نے ہی متاثر کیا۔بعد میں جب میں ساہیوال دفتر ضلع میں ناظم دفتر تھا تو ایک مرتبہ لاہور آیا ہوا تھا۔اچھرہ مہمان خانے میں جماعت کے دس پندرہ افراد کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا تو مَیں نے باری باری سب سے پوچھ لیا کہ آپ نے سب سے پہلے کونسی کتاب پڑھی تھی تو ان میں نصف سے زیادہ افراد نے’’ خطبات ‘‘ہی کا نام لیا اور باقی حضرات نے دوسری مختلف کتب کے نام لیے۔
س: کیا آپ اسلامی جمعیت طلبہ میں رہے؟
ج : مَیں جب نویں کلاس میں تھا تو ساہیوال جمعیت کے ناظم اقتدار احمد صاحب(ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے بھائی) کو خط لکھا کہ میں جمعیت میں کام کرنا چاہتا ہوں آپ میری رہنمائی فرمائیں۔تو ان کا جواب آیا لیکن اب مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے کیا لکھا۔ یہ یاد ہے کہ کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں تھا۔
س: مولانا مودودی سے پہلی ملاقات ؟ پہلی تقریر جو سنی؟ تاثرات ؟
ج : غالباً ۱۹۵۲میں عارف والا میں ضلعی اجتماع منعقد کیا گیا اس میں مولانامودودی کا پروگرام تھا۔ مولانا تشریف لائے تو ان کے استقبال اور مصافحہ کے لئے کارکنان لمبی قطار میں کھڑے ہو گئے اور مولانا نے سب سے مصافحہ کیا۔ ان میں مَیں بھی شریک تھا۔مولانا کے ہاتھ کا لمس آج بھی محسوس کرتا ہوں تو سینے میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ مولانا کا ہاتھ بہت نرم اورگداز تھا۔ اس اجتماع میں مولانا نے جو تقریر کی وہ میرے دل کی آواز تھی۔ ان دنوں پنجاب اسمبلی کے الیکشن کی تیاری تھی۔مولانا نے پہلے جماعت کی دعوت پیش کی اور پھر الیکشن کے متعلق ہدایات دیں۔
س: جماعت میں ہمہ وقتی کارکن کا تصور کیا ہے؟ دوسری جماعتوں میں تو شاید ایسا نہیں ہوتا۔کچھ ہمہ وقتی کارکنان بارے بتائیے۔
ج: جماعت میں ہمہ وقتی کارکنان کا تصور اس وقت سے چلا آ رہا ہے جب محترم میاں طفیل محمد صاحب کو ہمہ وقتی قیم جماعت مقرر کیا گیا۔ پیش نظر یہ تھا کہ ہمہ وقتی کارکنان اپنا پورا وقت جماعت کو دیں اور جماعت کو ہی اوڑھنا بچھونا بنائیں اور اس کام کو نوکری نہ سمجھیں۔ ضلع ساہیوال میں قیم ضلع محمد اکرم قریشی صاحب ہمہ وقتی کارکن تھے جو دن رات جماعت کے کام میں مصروف رہتے تھے۔ دوسری جماعتوں میں اکثر لوگ کھاتے پیتے اور ذرائع وسائل والے ہوتے ہیں اس لئے ان کو مالی سپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔کم آمدنی والے یا کم تعلیم والے لوگوں کی ان کو ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
س: نوجوانی کا زمانہ کیسے گزارا؟ کچھ یادیں، کچھ باتیں؟ کیا کبھی فلم دیکھی؟ کھیل کونسا پسند رہا؟
ج: نوجوانی کے کچھ سال فلم بینی میں گزرے۔ اس سے میرا ذہن یہ بنا کہ انسان کو اپنے محبوب کے لئے زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مَیں نے نسیم حجازی کے ناول پڑھنے شروع کر دیے۔ان ناولوں نے میرا ذہن یہ بنایا کہ جس محبوب کے لئے زندگی بسر کی جائے وہ کوئی انسان نہیں بلکہ کوئی اونچا مقصد محبوب ہونا چاہئیے۔ وہ مقصد کیا ہو؟اس بارے میں ذہن واضح نہیں تھا۔چنانچہ اس کی طرف سید مودودیؒ کی کتابوں نے رہنمائی کی۔ شروع شروع میں جماعت کا متفق بننے کے باوجود فلم دیکھنی نہیں چھوڑی۔ جب رکنیت کی درخواست دی تو احساس بیدار ہواکہ یہ کام ٹھیک نہیں ہے گناہ کا کام ہے تو فلم دیکھنا چھوڑ دی۔اس کے بعد بھی کبھی کبھی رات کو دوستوں کے ساتھ سنیما چلا جاتا تھا دوست سنیما کے اندر داخل ہو جاتے تھے اور مَیں وہاں تصویریں وغیرہ دیکھ کر واپس آ جاتا تھا۔ ایک ساتھی جو رکن جماعت تو نہیں تھے مگر جماعت کے ہمدرد تھے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا،انہوں نے پوچھا کہ تم سنیما میں کیوں جاتے ہو؟ مَیں نے کہا کہ مجھے اس بلڈنگ سے نفرت نہیں ہے بلکہ اس کے غلط استعمال سے نفرت ہے انہوں نے سمجھایا کہ تمہیں منور بخاری کے نام سے کوئی نہیں جانتا بلکہ جماعت اسلامی کے کارکن کی حیثیت سے لوگ تمہیں جانتے ہیں اور جب وہ سنیما سے آتے ہوئے تمہیں دیکھتے ہوں گے تو یہی سمجھتے ہوں گے کہ یہ فلم دیکھ کر آ رہا ہے۔ اس سے جماعت کی بدنامی ہوگی۔مجھ پر ان کی اس بات کا اثر ہوا۔ اس کے بعد مَیں نے سنیماکی بلڈنگ تک جانا بھی چھوڑ دیا۔کھیلوں میں فٹ بال،والی بال، پتنگ بازی، کبوتر بازی اور گُلی ڈنڈا میں دلچسپی رہی لیکن کسی بھی کھیل میں ماہر نہیں ہوا۔ساہیوال نظامت دفتر کے زمانے میں بلی کا خوبصورت بچہ پالاجب مَیں دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہوتا تو وہ میز کے نیچے میری پنڈلیوں پر چڑھ کر گود میں آ جاتا۔ گود میں سویا رہتا اور مَیں دفتر کا کام کرتا رہتا۔ایک مرتبہ دفتر میں ضلعی اجتماع ہوا تو لوگوں کے رش میں یہ بچہ گم ہو گیا۔
س: ۱۹۵۷ اور ۱۹۹۳میں آپ کی یکسوئی تو متاثر نہیں ہوئی؟
ج: ۱۹۵۷میں دور دراز شہر پاک پتن میں ہونے کی وجہ سے حقائق کا کچھ زیادہ علم نہیں تھا۔ ایک ساتھی نے سنی سنائی کئی باتیں کانوں میں ڈالیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اب جماعت اس قدر گِر گئی ہے کہ مولانا مودودی اپنی گاڑی میں جاتے ہوئے بند اشارے پر سپاہی کو رشوت دے کر گزر گئے۔ مجھے اس پر یقین تو نہیں تھا لیکن خلجان ضرور تھا۔ مَیں نے رکنیت کی درخواست دی ہوئی تھی، قیم ضلع محمد اکرم قریشی صاحب کو خط لکھا کہ میری درخواست واپس دے دی جائے۔ان کا جواب آیا کہ آپ کی درخواست داخل دفتر کر دی گئی ہے۔اس کے بعد تقریباًچھ ماہ کا عرصہ انتہائی دکھ اور تشویش میں گزرا اور دن رات نمازوں کے بعد یہ دعا حرز جان بنی رہی۔ ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہدیتنا و ہب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب۔ بعد میں جب مطلع صاف ہوااور کل پاکستان اجتماع ارکان منعقدہ ماچھی گوٹھ میں اکثر تقریریں پڑھنے کو ملِیں اور پتہ چلا کہ جو باتیں سنی تھیں وہ جھوٹا پراٹیگنڈہ تھا تو دل میں اطمینان پیدا ہوالہٰذا رکنیت کی درخواست دوبارہ دی جس کو دسمبر ۱۹۵۷میں اس وقت کے امیر ضلع محترم چوہدری عبدالرحمن صاحب(جو، تاسیسی رکن تھے) نے منظورکی وہ اوکاڑہ میں رہتے تھے اور ’’اوکاڑہ بس سروس اوکاڑہ ‘‘ کے مالک تھے۔
س: آپ نے مولانا مودودی کا زمانہ امارت پایا،پھر میاں طفیل محمدؒ اور قاضی حسین احمد کا اور اب محترم سید منور حسن صاحب کا دور امارت دیکھ رہے ہیں، آپ ان ادوار کو کیسے محسوس کرتے ہیں؟
ج: مولانا مودودی صاحب کے ساتھ جذباتی وابستگی تھی۔ان کا منصب امارت چھوڑنا بہت شاق گزرا۔ بعد میں میاں طفیل محمد صاحب نے جب یہ منصب سنبھالا تو کچھ عرصہ بعد منصورہ میں کل پاکستان اجتماع ہوا۔(اس زمانے میں یہ عمارات نہیں بنی تھیں)اس اجتماع کے پروگرام کا ایک حصہ اجتماع ارکان بھی تھا اس میں میاں صاحب نے ارکان کو ان کی کمزوریوں کی طرف متوجہ کرکے اصلاح کی طرف راغب کیا تو اطمینان ہوا کہ ان کی امارت میں بھی جماعت اپنے معیار پر قائم رہے گی۔محترم قاضی صاحب جب امیر جماعت بنے تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جماعت میں لانے کی سرگرمیاں دیکھ کر پہلے تشویش ہوئی کہ رکنیت کا معیار نہ گر جائے۔مگر بعد میں جماعت کے کام میں ان کی جاں فشانی دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اب قاضی صاحب کے ساتھ عقیدت مندی کی کیفیت پیدا ہوئی اور آج کل جب کبھی وہ مسجد میں تشریف لاتے ہیں تو بے اختیار ان سے مصافحہ اور معانقہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اب محترم سید منور حسن صاحب کی طرف سے ’’گو امریکہ گو‘‘اور ’’رجوع الی اللہ ‘‘ اور ’’رابطہ عوام ‘‘جیسی مہمات سے دل میں اطمینان ہے کہ تحریک صحیح جا رہی ہے۔
س: جس نصب العین پر جماعت کی تاسیس ہوئی کیا جماعت آج بھی اسی نصب العین پر قائم ہے؟
ج: ا س سوال کا جواب کافی حد تک اوپر والے جواب میں موجود ہے۔ البتہ یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ حالات بدلنے سے لائحہ عمل میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضروری ہو جاتی ہے۔ورنہ تحریک جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔
س: آج کل کونسی کتاب زیر مطالعہ ہے؟ مطالعہ کیسے کرتے ہیں؟
ج: آج کل سید علی گیلانی کی کتاب ’’اقبال: روح دین کا شناسا ‘‘ پڑھ رہا ہوں۔دفتر سے فارغ ہو کر جب گھر جاتا ہوں تو کتاب سے لپٹ جاتا ہوں۔
س: آپ کے خیال میں وہ کونسا مصنف اور کتاب ہے جو ہر کسی کو پڑھنی چاہیے۔
ج: مولانا کی ’’خلافت و ملوکیت ‘‘، تفہیمات اور تنقیحات۔ نسیم حجازی کی ’’خاک اور خون‘‘اور ’’محمد بن قاسم‘‘وغیرہ
س: چند ایسی کتب جو پڑھنی شروع کیں اور ختم کیے بغیر چھوڑ نہ سکے۔
ج: ’’جماعت اسلامی کے ۲۹ سال‘‘، ’’تجدید و احیائے دین‘‘، ’’قادیانی مسئلہ ‘‘اور’’شہادت امام حسین‘‘۔
س: آپ کے بچپن کی کوئی دلچسپ، پسندیدہ کتاب یا رسالہ یا کہانی؟
ج: جیلانی بی اے کا افسانہ ’’احوبہ‘‘ بہت پڑھا۔نعیم صدیقی کا افسانہ ’’چپ ہی بھلی‘‘بہت اچھا لگا۔علاوہ ازیں ماہنامہ’’ تجلی‘‘ دیو بند میں مزاحیہ اور طنزیہ افسانے ’’مسجد سے مے خانے تک‘‘بھی پسند تھے۔اس کے علاوہ علامہ اقبال کی نظم ’’آرزو‘‘ (دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب) بار بار پڑھی۔نسیم حجازی کے ناول بھی بہت پسند آئے۔
س: جماعت اسلامی کی چند (علمی،عسکری،سیاسی) سرگرمیوں میں سے سب سے بڑا دلچسپ اور پسندیدہ واقعہ ؟
ج: ۱۹۶۵ کی لڑائی کے دوران عوام کا حوصلہ بڑھانے اور دفاعی فنڈ جمع کرنے کے لئے جلسہ منعقد کیا گیا۔جس میں اوکاڑہ سے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب اپنے دو ساتھیوں سمیت تشریف لائے۔ڈاکٹر صاحب ایک تو ویسے ہی بڑے ڈیل ڈول والے اور اونچے قد والے تھے اوپر سے انہوں نے خاکی وردی پہنی ہوئی تھی۔ اس حالت میں وہ بہت خوبصورت مجاہد نظر آتے تھے۔ ان کی تقریر بھی انتہائی مؤثر تھی۔لوگ ان سے بہت مرعوب ہوئے اور بڑا فنڈ جمع ہوا۔
س: تحریکی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ ؟
ج: جب ایوبی مارشل لا لگا تو جماعتوں کو بین کر دیا گیا۔مَیں نے اس وقت جماعت کا دارالمطالعہ بنایا ہوا تھا اور وہی جماعت اسلامی کا دفتر بھی تھا۔پولیس والے آئے اور کتابیں، میز کرسیاں اور دیگر سامان کی فہرست بنائی اس کی ایک نقل مجھے دی اور سامان سارا تھانے لے گئے۔ جب کئی سال بعد جماعت بحال ہوئی تو مَیں وہ سامان واپس لینے کے لئے تھانے گیا۔ اس سامان میں ایک بنچ بھی تھا انہوں نے مجھے دیگر سامان تو دے دیا لیکن بنچ نہ دیا میں نے فہرست دکھا کر مطالبہ کیا تو کہنے لگے کہ یہ بنچ نہیں پنچ لکھا ہوا ہے۔اورانہوں نے مجھے کاغذ میں ایک سوراخ کرنے والا پنچ تھما دیا۔مَیں نے کہا کہ جس بنچ پر لوگ بیٹھے ہیں یہ ہمارا ہے یہ دے دیجیے تو کہا نہیں فہرست میں پنچ لکھا ہوا ہے وہ ہم نے آپ کو دے دیا ہے بس اب اور کوئی مطالبہ نہ کریں۔ وہ ساتھ ساتھ ہنس بھی رہے تھے کہ مطالبہ صحیح ہے لیکن چونکہ وہ بنچ نہ دینے کا فیصلہ کیے بیٹھے تھے اس لئے صاف انکار کر دیا۔مَیں نے اس بارے میں بہت جھگڑا کیا لیکن انہوں نے میری ایک نہ مانی،مَیں مجبوراً وہی پنچ لے کر واپس آ گیا۔
س: جماعتی زندگی میں کبھی مقدمات اور گرفتاری سے گزرے ؟
ج: ساہیوال میں ایوبی مارشل لا کے دوران ایک مرتبہ گرفتاری کا امکان پیدا ہوا لیکن دو تین وکیل ساتھیوں نے قبل از گرفتاری ضمانت کروا لی اور مَیں اس سعادت سے محروم رہا۔
س: زندگی کے اس مرحلے تک آتے آتے کون کونسے اہم کام تھے جو آپ نہ کر سکے؟
ج: دعوت کے کام کی بہت حسرت ہے جو مَیں کما حقہ نہ کر پایا۔دو تین دیہات میں دعوتی دورے کے دوران لوگوں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا کہ وہ نوجوان کہاں ہیں جو پہلے آتے تھے وہ بہت اچھی تقریر کرتے تھے۔ان کا اشارہ شیر محمد شاہ صاحب کی طرف تھا۔میرے پاس شاید وہ صلاحیت ہی نہیں تھی جس سے لوگوں کو متاثر کر سکتا۔
س: جماعت اسلامی میں آکر آپ نے کیا پایا اور کیا کھویا؟
ج: جماعت اسلامی میں آ کر میں نے اپنے اللّٰہ کو پا لیا۔ اس کے بعد کسی چیز کی حاجت نہیں رہی۔سب کچھ پایا ہی پایا ہے کھویا کچھ نہیں۔ کھونے کے لئے میرے پاس تھا ہی کچھ نہیں۔
س: جماعت میں آنے کے بعد آپ کا اپنے خاندان یا عزیز و اقارب والوں سے تعلق کیسا رہا؟ کیا آپ کے خاندان میں سے کوئی جماعت میں آیا ؟ جماعت بارے آپ کے خاندان کی رائے؟
ج: جب میرے والد محترم کو معلوم ہوا کہ مَیں نے رکنیت کی درخواست دے دی ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے۔کاغذ پنسل مجھے دے کر حکم دیا کہ یہاں لکھو کہ مجھے رکن نہ بنایا جائے۔مَیں پنسل ہاتھ میں لے کر خاموش بیٹھارہا۔آخر والدہ محترمہ نے مجھے فرمایا کہ یوں خاموش بیٹھنے کی بجائے کچھ بولو۔ان کے کہنے پر مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور مَیں نے کہا کہ مَیں جو قدم اٹھا چکا ہوں وہ واپس نہیں لوں گا۔بس پھر والد صاحب نے فرمایا کہ پھر میرے گھر میں تیرے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔اور اٹھ کر باہر چلے گئے۔وہ ایک گاؤں میں کسی زمیندار کے ہاں نوکری کرتے تھے وہاں چلے گئے۔ تقریباً ایک ہفتہ بعد ان کے نام قیم ضلع کا خط آیا لکھا تھا کہ ہم اللہ کے خوف سے ہی آپ کے بیٹے کی درخواست منظور کریں گے۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے خود ہی دفتر ضلع میں خط لکھ دیا تھاکہ آپ میرے بیٹے کو رکن نہ بنائیں اور خدا کا خوف کریں کہ وہ رکن بن گیا تو اس کی نوکری ختم ہو جائیگی اور ہم بھوکے مریں گے۔اصل میں اس سے پہلے شیر محمد شاہ صاحب اور دو اور کزن جو رکن بنے تھے ان کو نوکری سے ہٹا دیا گیا تھا۔ مَیں نے یہ خط ان کے نام ڈاک میں ڈالا اور ساتھ ہی اپنی طرف سے انہیں خط لکھا اور اقامت دین کے فریضے کی وضاحت کرکے عرض کیا کہ بہتر صورت تو یہ تھی کہ ہم باپ بیٹا دونوں اس تحریک میں کام کرتے لیکن اگر آپ نہیں آتے تو مجھے تو نہ روکیں۔آخر میں یہ لکھا کہ آپ دعا کریں کہ اس وقت کے آنے سے پہلے میری موت آ جائے جب میں اپنا اٹھایا ہواقدم واپس لوں۔یہ خط وصول کرکے وہ پھر واپس آئے اور کئی بزرگوں کو میرا خط دکھایا ایک بزرگ نے مشورہ دیا کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو یہ اب لاعلاج ہو چکا ہے۔نائب قیم ضلع تشریف لائے تو پوچھا کہ آپ کے والد کو معلوم ہو گیا ہے کہ آپ نے رکنیت کی درخواست دے دی ہے ؟ان کا کیا رد عمل تھا؟ اس پر مَیں نے ان کو ساری صورت حال بتائی اور جو خط میں نے والد محترم کے نام لکھا تھا اس کی نقل دکھائی تو پھر انہوں نے میری رکنیت منظور کرنے کی سفارش کر دی۔
ہمارے خاندان میں اکثر یہ تاثر تھا کہ یہ وہابیوں کی جماعت ہے اسلئے کہ ہمارے گھر کے ساتھ ہی حضرت سید بدرالدین اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے جن کو ہم دادا پیر کہتے تھے اس میں ہونے والی غلط رسومات کی ہم مخالفت کرتے رہتے تھے۔ اس لئے پھر کوئی قریب نہیں پھٹکا۔ کوئی دو چار نوجوان متاثر تھے لیکن وہ بھی کارکن نہیں بنے۔
س: جماعت اسلامی کی درخشندہ روایات بارے کچھ بتائیے۔
ج: جماعت کی جد و جہد سے قرار دادمقاصد کا پاس ہونا اور پھر۱۹۵۶ کا اسلامی دستور نافذ ہونابہت بڑاتاریخی واقعہ تھا مگردرخشندہ روایات کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں دوسرے لوگوں کے لئے ان کی درخشندگی اور اس کے دور رس نتائج کا کوئی شعور نہیں تھا۔ البتہ ہمارے طرز عمل کے بارے میں کچھ بزرگ متاثر تھے۔ہوا یہ کہ ہمارے ایک بزرگ نے ایک غلط کام کیا جس پر عدالت میں ان پر مقدمہ چلا تو مَیں نے ان کے خلاف گواہی دی۔وہ میری والدہ محترمہ کے ماموں زاد بھائی تھے۔وہ مجھ پر سخت ناراض ہوئے۔ اور مجھ سے بول چال بند کر دی۔مگر جب بھی کہیں میرا ان سے آمنا سامنا ہوتا تو مَیں السلام علیکم کہہ دیتا اگرچہ وہ جواب نہیں دیتے تھے۔کوئی سال بعد ایک فنکشن میں برادری اکٹھی ہوئی تو انہوں نے یہ تعریفی جملے کہے کہ یہ چند نوجوان مثالی کردار رکھتے ہیں۔
س : آپ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیے۔ بچپن کہاں گزرا، کیسے گزرا ؟ ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
ج : میرا آبائی وطن پاک پتن ہے۔وہاں بابا فرید شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کے داماد سید بدر الدین اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے اور ہر سال جمادی الاول میں وہاں بھی میلہ لگتا ہے۔میرا تعلق ان کے خاندان سے ہے۔ بچپن بالکل بے شعوری کی حالت میں گزرا۔ جب پانچ سال کا ہوا تو والد محترم نے پرائمری سکول لے جا کر داخل کرایا۔جب جماعت چہارم میں پہنچا تو والد صاحب ساری فیمیلی کو اپنے حلقہ پٹوار میں لے گئے وہاں ایک گاؤں میں پڑھتا رہا۔جب ۱۹۴۷ میں جماعت ہشتم میں پہنچا تو پاکستان بن گیا۔سکول کا ہیڈماسٹر ایک سکھ تھا۔ نامعلوم اس کا کیا حشر ہوا۔بہرحال تین چار ماہ سکول بند رہا اور ہماری فیمیلی پھر پاک پتن منتقل ہو گئی۔ گورنمنٹ ہائی سکول پاک پتن میں ۱۹۵۳ میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اتنے میں والد محترم نوکری سے ریٹائر ہو گئے۔ اسلئے میں آگے نہ پڑھ سکا۔ان دنوں پاک پتن میں کوئی کالج بھی نہیں تھا۔
س: آپ جماعت میں کیسے آئے ؟
ج: پاک پتن کے رہنے والے پروفیسر شیر محمد شاہ صاحب ۱۹۵۲ء میں ابھی پروفیسر نہیں ہوئے تھے وہ جماعت اسلامی کے ہمہ وقتی کارکن تھے مَیں اس وقت نویں کلاس میں زیر تعلیم تھا۔ ان کی باتیں سن کر جماعت میں دلچسپی ہو گئی تھی۔ ایک مرتبہ کسی نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے خلاف کوئی بات کی تومَیں شیر محمد شاہ صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ لوگ مولانا پر اعتراض کرتے ہیں تو انہوں نے اس حوالے سے تو کوئی بات نہ کی البتہ ایک پمفلٹ ’’عبادت‘‘ مجھے تھما دیا اور کہا کہ اس کو پڑھ لو۔ وہ اعتراض تومَیں بھول ہی گیا اور مزید پمفلٹ اور کتابیں لے کر پڑھتا رہا۔اس طرح جماعت سے متعارف ہوا۔ پہلے جماعت کا متفق بنا اور پھر دسمبر ۱۹۵۷ میں رکنیت منظور ہوئی۔
س: مولانا کی کس کتاب نے متاثر کیا ؟ اس بارے تاثرات؟
ج: مولانا کی کتابوں میں سے سب سے زیادہ ’’خطبات‘‘ نے ہی متاثر کیا۔بعد میں جب میں ساہیوال دفتر ضلع میں ناظم دفتر تھا تو ایک مرتبہ لاہور آیا ہوا تھا۔اچھرہ مہمان خانے میں جماعت کے دس پندرہ افراد کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا تو مَیں نے باری باری سب سے پوچھ لیا کہ آپ نے سب سے پہلے کونسی کتاب پڑھی تھی تو ان میں نصف سے زیادہ افراد نے’’ خطبات ‘‘ہی کا نام لیا اور باقی حضرات نے دوسری مختلف کتب کے نام لیے۔
س: کیا آپ اسلامی جمعیت طلبہ میں رہے؟
ج : مَیں جب نویں کلاس میں تھا تو ساہیوال جمعیت کے ناظم اقتدار احمد صاحب(ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے بھائی) کو خط لکھا کہ میں جمعیت میں کام کرنا چاہتا ہوں آپ میری رہنمائی فرمائیں۔تو ان کا جواب آیا لیکن اب مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے کیا لکھا۔ یہ یاد ہے کہ کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں تھا۔
س: مولانا مودودی سے پہلی ملاقات ؟ پہلی تقریر جو سنی؟ تاثرات ؟
ج : غالباً ۱۹۵۲میں عارف والا میں ضلعی اجتماع منعقد کیا گیا اس میں مولانامودودی کا پروگرام تھا۔ مولانا تشریف لائے تو ان کے استقبال اور مصافحہ کے لئے کارکنان لمبی قطار میں کھڑے ہو گئے اور مولانا نے سب سے مصافحہ کیا۔ ان میں مَیں بھی شریک تھا۔مولانا کے ہاتھ کا لمس آج بھی محسوس کرتا ہوں تو سینے میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ مولانا کا ہاتھ بہت نرم اورگداز تھا۔ اس اجتماع میں مولانا نے جو تقریر کی وہ میرے دل کی آواز تھی۔ ان دنوں پنجاب اسمبلی کے الیکشن کی تیاری تھی۔مولانا نے پہلے جماعت کی دعوت پیش کی اور پھر الیکشن کے متعلق ہدایات دیں۔
س: جماعت میں ہمہ وقتی کارکن کا تصور کیا ہے؟ دوسری جماعتوں میں تو شاید ایسا نہیں ہوتا۔کچھ ہمہ وقتی کارکنان بارے بتائیے۔
ج: جماعت میں ہمہ وقتی کارکنان کا تصور اس وقت سے چلا آ رہا ہے جب محترم میاں طفیل محمد صاحب کو ہمہ وقتی قیم جماعت مقرر کیا گیا۔ پیش نظر یہ تھا کہ ہمہ وقتی کارکنان اپنا پورا وقت جماعت کو دیں اور جماعت کو ہی اوڑھنا بچھونا بنائیں اور اس کام کو نوکری نہ سمجھیں۔ ضلع ساہیوال میں قیم ضلع محمد اکرم قریشی صاحب ہمہ وقتی کارکن تھے جو دن رات جماعت کے کام میں مصروف رہتے تھے۔ دوسری جماعتوں میں اکثر لوگ کھاتے پیتے اور ذرائع وسائل والے ہوتے ہیں اس لئے ان کو مالی سپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔کم آمدنی والے یا کم تعلیم والے لوگوں کی ان کو ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
س: نوجوانی کا زمانہ کیسے گزارا؟ کچھ یادیں، کچھ باتیں؟ کیا کبھی فلم دیکھی؟ کھیل کونسا پسند رہا؟
ج: نوجوانی کے کچھ سال فلم بینی میں گزرے۔ اس سے میرا ذہن یہ بنا کہ انسان کو اپنے محبوب کے لئے زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مَیں نے نسیم حجازی کے ناول پڑھنے شروع کر دیے۔ان ناولوں نے میرا ذہن یہ بنایا کہ جس محبوب کے لئے زندگی بسر کی جائے وہ کوئی انسان نہیں بلکہ کوئی اونچا مقصد محبوب ہونا چاہئیے۔ وہ مقصد کیا ہو؟اس بارے میں ذہن واضح نہیں تھا۔چنانچہ اس کی طرف سید مودودیؒ کی کتابوں نے رہنمائی کی۔ شروع شروع میں جماعت کا متفق بننے کے باوجود فلم دیکھنی نہیں چھوڑی۔ جب رکنیت کی درخواست دی تو احساس بیدار ہواکہ یہ کام ٹھیک نہیں ہے گناہ کا کام ہے تو فلم دیکھنا چھوڑ دی۔اس کے بعد بھی کبھی کبھی رات کو دوستوں کے ساتھ سنیما چلا جاتا تھا دوست سنیما کے اندر داخل ہو جاتے تھے اور مَیں وہاں تصویریں وغیرہ دیکھ کر واپس آ جاتا تھا۔ ایک ساتھی جو رکن جماعت تو نہیں تھے مگر جماعت کے ہمدرد تھے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا،انہوں نے پوچھا کہ تم سنیما میں کیوں جاتے ہو؟ مَیں نے کہا کہ مجھے اس بلڈنگ سے نفرت نہیں ہے بلکہ اس کے غلط استعمال سے نفرت ہے انہوں نے سمجھایا کہ تمہیں منور بخاری کے نام سے کوئی نہیں جانتا بلکہ جماعت اسلامی کے کارکن کی حیثیت سے لوگ تمہیں جانتے ہیں اور جب وہ سنیما سے آتے ہوئے تمہیں دیکھتے ہوں گے تو یہی سمجھتے ہوں گے کہ یہ فلم دیکھ کر آ رہا ہے۔ اس سے جماعت کی بدنامی ہوگی۔مجھ پر ان کی اس بات کا اثر ہوا۔ اس کے بعد مَیں نے سنیماکی بلڈنگ تک جانا بھی چھوڑ دیا۔کھیلوں میں فٹ بال،والی بال، پتنگ بازی، کبوتر بازی اور گُلی ڈنڈا میں دلچسپی رہی لیکن کسی بھی کھیل میں ماہر نہیں ہوا۔ساہیوال نظامت دفتر کے زمانے میں بلی کا خوبصورت بچہ پالاجب مَیں دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہوتا تو وہ میز کے نیچے میری پنڈلیوں پر چڑھ کر گود میں آ جاتا۔ گود میں سویا رہتا اور مَیں دفتر کا کام کرتا رہتا۔ایک مرتبہ دفتر میں ضلعی اجتماع ہوا تو لوگوں کے رش میں یہ بچہ گم ہو گیا۔
س: ۱۹۵۷ اور ۱۹۹۳میں آپ کی یکسوئی تو متاثر نہیں ہوئی؟
ج: ۱۹۵۷میں دور دراز شہر پاک پتن میں ہونے کی وجہ سے حقائق کا کچھ زیادہ علم نہیں تھا۔ ایک ساتھی نے سنی سنائی کئی باتیں کانوں میں ڈالیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اب جماعت اس قدر گِر گئی ہے کہ مولانا مودودی اپنی گاڑی میں جاتے ہوئے بند اشارے پر سپاہی کو رشوت دے کر گزر گئے۔ مجھے اس پر یقین تو نہیں تھا لیکن خلجان ضرور تھا۔ مَیں نے رکنیت کی درخواست دی ہوئی تھی، قیم ضلع محمد اکرم قریشی صاحب کو خط لکھا کہ میری درخواست واپس دے دی جائے۔ان کا جواب آیا کہ آپ کی درخواست داخل دفتر کر دی گئی ہے۔اس کے بعد تقریباًچھ ماہ کا عرصہ انتہائی دکھ اور تشویش میں گزرا اور دن رات نمازوں کے بعد یہ دعا حرز جان بنی رہی۔ ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہدیتنا و ہب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب۔ بعد میں جب مطلع صاف ہوااور کل پاکستان اجتماع ارکان منعقدہ ماچھی گوٹھ میں اکثر تقریریں پڑھنے کو ملِیں اور پتہ چلا کہ جو باتیں سنی تھیں وہ جھوٹا پراٹیگنڈہ تھا تو دل میں اطمینان پیدا ہوالہٰذا رکنیت کی درخواست دوبارہ دی جس کو دسمبر ۱۹۵۷میں اس وقت کے امیر ضلع محترم چوہدری عبدالرحمن صاحب(جو، تاسیسی رکن تھے) نے منظورکی وہ اوکاڑہ میں رہتے تھے اور ’’اوکاڑہ بس سروس اوکاڑہ ‘‘ کے مالک تھے۔
س: آپ نے مولانا مودودی کا زمانہ امارت پایا،پھر میاں طفیل محمدؒ اور قاضی حسین احمد کا اور اب محترم سید منور حسن صاحب کا دور امارت دیکھ رہے ہیں، آپ ان ادوار کو کیسے محسوس کرتے ہیں؟
ج: مولانا مودودی صاحب کے ساتھ جذباتی وابستگی تھی۔ان کا منصب امارت چھوڑنا بہت شاق گزرا۔ بعد میں میاں طفیل محمد صاحب نے جب یہ منصب سنبھالا تو کچھ عرصہ بعد منصورہ میں کل پاکستان اجتماع ہوا۔(اس زمانے میں یہ عمارات نہیں بنی تھیں)اس اجتماع کے پروگرام کا ایک حصہ اجتماع ارکان بھی تھا اس میں میاں صاحب نے ارکان کو ان کی کمزوریوں کی طرف متوجہ کرکے اصلاح کی طرف راغب کیا تو اطمینان ہوا کہ ان کی امارت میں بھی جماعت اپنے معیار پر قائم رہے گی۔محترم قاضی صاحب جب امیر جماعت بنے تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جماعت میں لانے کی سرگرمیاں دیکھ کر پہلے تشویش ہوئی کہ رکنیت کا معیار نہ گر جائے۔مگر بعد میں جماعت کے کام میں ان کی جاں فشانی دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اب قاضی صاحب کے ساتھ عقیدت مندی کی کیفیت پیدا ہوئی اور آج کل جب کبھی وہ مسجد میں تشریف لاتے ہیں تو بے اختیار ان سے مصافحہ اور معانقہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اب محترم سید منور حسن صاحب کی طرف سے ’’گو امریکہ گو‘‘اور ’’رجوع الی اللہ ‘‘ اور ’’رابطہ عوام ‘‘جیسی مہمات سے دل میں اطمینان ہے کہ تحریک صحیح جا رہی ہے۔
س: جس نصب العین پر جماعت کی تاسیس ہوئی کیا جماعت آج بھی اسی نصب العین پر قائم ہے؟
ج: ا س سوال کا جواب کافی حد تک اوپر والے جواب میں موجود ہے۔ البتہ یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ حالات بدلنے سے لائحہ عمل میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضروری ہو جاتی ہے۔ورنہ تحریک جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔
س: آج کل کونسی کتاب زیر مطالعہ ہے؟ مطالعہ کیسے کرتے ہیں؟
ج: آج کل سید علی گیلانی کی کتاب ’’اقبال: روح دین کا شناسا ‘‘ پڑھ رہا ہوں۔دفتر سے فارغ ہو کر جب گھر جاتا ہوں تو کتاب سے لپٹ جاتا ہوں۔
س: آپ کے خیال میں وہ کونسا مصنف اور کتاب ہے جو ہر کسی کو پڑھنی چاہیے۔
ج: مولانا کی ’’خلافت و ملوکیت ‘‘، تفہیمات اور تنقیحات۔ نسیم حجازی کی ’’خاک اور خون‘‘اور ’’محمد بن قاسم‘‘وغیرہ
س: چند ایسی کتب جو پڑھنی شروع کیں اور ختم کیے بغیر چھوڑ نہ سکے۔
ج: ’’جماعت اسلامی کے ۲۹ سال‘‘، ’’تجدید و احیائے دین‘‘، ’’قادیانی مسئلہ ‘‘اور’’شہادت امام حسین‘‘۔
س: آپ کے بچپن کی کوئی دلچسپ، پسندیدہ کتاب یا رسالہ یا کہانی؟
ج: جیلانی بی اے کا افسانہ ’’احوبہ‘‘ بہت پڑھا۔نعیم صدیقی کا افسانہ ’’چپ ہی بھلی‘‘بہت اچھا لگا۔علاوہ ازیں ماہنامہ’’ تجلی‘‘ دیو بند میں مزاحیہ اور طنزیہ افسانے ’’مسجد سے مے خانے تک‘‘بھی پسند تھے۔اس کے علاوہ علامہ اقبال کی نظم ’’آرزو‘‘ (دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب) بار بار پڑھی۔نسیم حجازی کے ناول بھی بہت پسند آئے۔
س: جماعت اسلامی کی چند (علمی،عسکری،سیاسی) سرگرمیوں میں سے سب سے بڑا دلچسپ اور پسندیدہ واقعہ ؟
ج: ۱۹۶۵ کی لڑائی کے دوران عوام کا حوصلہ بڑھانے اور دفاعی فنڈ جمع کرنے کے لئے جلسہ منعقد کیا گیا۔جس میں اوکاڑہ سے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب اپنے دو ساتھیوں سمیت تشریف لائے۔ڈاکٹر صاحب ایک تو ویسے ہی بڑے ڈیل ڈول والے اور اونچے قد والے تھے اوپر سے انہوں نے خاکی وردی پہنی ہوئی تھی۔ اس حالت میں وہ بہت خوبصورت مجاہد نظر آتے تھے۔ ان کی تقریر بھی انتہائی مؤثر تھی۔لوگ ان سے بہت مرعوب ہوئے اور بڑا فنڈ جمع ہوا۔
س: تحریکی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ ؟
ج: جب ایوبی مارشل لا لگا تو جماعتوں کو بین کر دیا گیا۔مَیں نے اس وقت جماعت کا دارالمطالعہ بنایا ہوا تھا اور وہی جماعت اسلامی کا دفتر بھی تھا۔پولیس والے آئے اور کتابیں، میز کرسیاں اور دیگر سامان کی فہرست بنائی اس کی ایک نقل مجھے دی اور سامان سارا تھانے لے گئے۔ جب کئی سال بعد جماعت بحال ہوئی تو مَیں وہ سامان واپس لینے کے لئے تھانے گیا۔ اس سامان میں ایک بنچ بھی تھا انہوں نے مجھے دیگر سامان تو دے دیا لیکن بنچ نہ دیا میں نے فہرست دکھا کر مطالبہ کیا تو کہنے لگے کہ یہ بنچ نہیں پنچ لکھا ہوا ہے۔اورانہوں نے مجھے کاغذ میں ایک سوراخ کرنے والا پنچ تھما دیا۔مَیں نے کہا کہ جس بنچ پر لوگ بیٹھے ہیں یہ ہمارا ہے یہ دے دیجیے تو کہا نہیں فہرست میں پنچ لکھا ہوا ہے وہ ہم نے آپ کو دے دیا ہے بس اب اور کوئی مطالبہ نہ کریں۔ وہ ساتھ ساتھ ہنس بھی رہے تھے کہ مطالبہ صحیح ہے لیکن چونکہ وہ بنچ نہ دینے کا فیصلہ کیے بیٹھے تھے اس لئے صاف انکار کر دیا۔مَیں نے اس بارے میں بہت جھگڑا کیا لیکن انہوں نے میری ایک نہ مانی،مَیں مجبوراً وہی پنچ لے کر واپس آ گیا۔
س: جماعتی زندگی میں کبھی مقدمات اور گرفتاری سے گزرے ؟
ج: ساہیوال میں ایوبی مارشل لا کے دوران ایک مرتبہ گرفتاری کا امکان پیدا ہوا لیکن دو تین وکیل ساتھیوں نے قبل از گرفتاری ضمانت کروا لی اور مَیں اس سعادت سے محروم رہا۔
س: زندگی کے اس مرحلے تک آتے آتے کون کونسے اہم کام تھے جو آپ نہ کر سکے؟
ج: دعوت کے کام کی بہت حسرت ہے جو مَیں کما حقہ نہ کر پایا۔دو تین دیہات میں دعوتی دورے کے دوران لوگوں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا کہ وہ نوجوان کہاں ہیں جو پہلے آتے تھے وہ بہت اچھی تقریر کرتے تھے۔ان کا اشارہ شیر محمد شاہ صاحب کی طرف تھا۔میرے پاس شاید وہ صلاحیت ہی نہیں تھی جس سے لوگوں کو متاثر کر سکتا۔
س: جماعت اسلامی میں آکر آپ نے کیا پایا اور کیا کھویا؟
ج: جماعت اسلامی میں آ کر میں نے اپنے اللّٰہ کو پا لیا۔ اس کے بعد کسی چیز کی حاجت نہیں رہی۔سب کچھ پایا ہی پایا ہے کھویا کچھ نہیں۔ کھونے کے لئے میرے پاس تھا ہی کچھ نہیں۔
س: جماعت میں آنے کے بعد آپ کا اپنے خاندان یا عزیز و اقارب والوں سے تعلق کیسا رہا؟ کیا آپ کے خاندان میں سے کوئی جماعت میں آیا ؟ جماعت بارے آپ کے خاندان کی رائے؟
ج: جب میرے والد محترم کو معلوم ہوا کہ مَیں نے رکنیت کی درخواست دے دی ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے۔کاغذ پنسل مجھے دے کر حکم دیا کہ یہاں لکھو کہ مجھے رکن نہ بنایا جائے۔مَیں پنسل ہاتھ میں لے کر خاموش بیٹھارہا۔آخر والدہ محترمہ نے مجھے فرمایا کہ یوں خاموش بیٹھنے کی بجائے کچھ بولو۔ان کے کہنے پر مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور مَیں نے کہا کہ مَیں جو قدم اٹھا چکا ہوں وہ واپس نہیں لوں گا۔بس پھر والد صاحب نے فرمایا کہ پھر میرے گھر میں تیرے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔اور اٹھ کر باہر چلے گئے۔وہ ایک گاؤں میں کسی زمیندار کے ہاں نوکری کرتے تھے وہاں چلے گئے۔ تقریباً ایک ہفتہ بعد ان کے نام قیم ضلع کا خط آیا لکھا تھا کہ ہم اللہ کے خوف سے ہی آپ کے بیٹے کی درخواست منظور کریں گے۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے خود ہی دفتر ضلع میں خط لکھ دیا تھاکہ آپ میرے بیٹے کو رکن نہ بنائیں اور خدا کا خوف کریں کہ وہ رکن بن گیا تو اس کی نوکری ختم ہو جائیگی اور ہم بھوکے مریں گے۔اصل میں اس سے پہلے شیر محمد شاہ صاحب اور دو اور کزن جو رکن بنے تھے ان کو نوکری سے ہٹا دیا گیا تھا۔ مَیں نے یہ خط ان کے نام ڈاک میں ڈالا اور ساتھ ہی اپنی طرف سے انہیں خط لکھا اور اقامت دین کے فریضے کی وضاحت کرکے عرض کیا کہ بہتر صورت تو یہ تھی کہ ہم باپ بیٹا دونوں اس تحریک میں کام کرتے لیکن اگر آپ نہیں آتے تو مجھے تو نہ روکیں۔آخر میں یہ لکھا کہ آپ دعا کریں کہ اس وقت کے آنے سے پہلے میری موت آ جائے جب میں اپنا اٹھایا ہواقدم واپس لوں۔یہ خط وصول کرکے وہ پھر واپس آئے اور کئی بزرگوں کو میرا خط دکھایا ایک بزرگ نے مشورہ دیا کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو یہ اب لاعلاج ہو چکا ہے۔نائب قیم ضلع تشریف لائے تو پوچھا کہ آپ کے والد کو معلوم ہو گیا ہے کہ آپ نے رکنیت کی درخواست دے دی ہے ؟ان کا کیا رد عمل تھا؟ اس پر مَیں نے ان کو ساری صورت حال بتائی اور جو خط میں نے والد محترم کے نام لکھا تھا اس کی نقل دکھائی تو پھر انہوں نے میری رکنیت منظور کرنے کی سفارش کر دی۔
ہمارے خاندان میں اکثر یہ تاثر تھا کہ یہ وہابیوں کی جماعت ہے اسلئے کہ ہمارے گھر کے ساتھ ہی حضرت سید بدرالدین اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے جن کو ہم دادا پیر کہتے تھے اس میں ہونے والی غلط رسومات کی ہم مخالفت کرتے رہتے تھے۔ اس لئے پھر کوئی قریب نہیں پھٹکا۔ کوئی دو چار نوجوان متاثر تھے لیکن وہ بھی کارکن نہیں بنے۔
س: جماعت اسلامی کی درخشندہ روایات بارے کچھ بتائیے۔
ج: جماعت کی جد و جہد سے قرار دادمقاصد کا پاس ہونا اور پھر۱۹۵۶ کا اسلامی دستور نافذ ہونابہت بڑاتاریخی واقعہ تھا مگردرخشندہ روایات کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں دوسرے لوگوں کے لئے ان کی درخشندگی اور اس کے دور رس نتائج کا کوئی شعور نہیں تھا۔ البتہ ہمارے طرز عمل کے بارے میں کچھ بزرگ متاثر تھے۔ہوا یہ کہ ہمارے ایک بزرگ نے ایک غلط کام کیا جس پر عدالت میں ان پر مقدمہ چلا تو مَیں نے ان کے خلاف گواہی دی۔وہ میری والدہ محترمہ کے ماموں زاد بھائی تھے۔وہ مجھ پر سخت ناراض ہوئے۔ اور مجھ سے بول چال بند کر دی۔مگر جب بھی کہیں میرا ان سے آمنا سامنا ہوتا تو مَیں السلام علیکم کہہ دیتا اگرچہ وہ جواب نہیں دیتے تھے۔کوئی سال بعد ایک فنکشن میں برادری اکٹھی ہوئی تو انہوں نے یہ تعریفی جملے کہے کہ یہ چند نوجوان مثالی کردار رکھتے ہیں۔
1 comments:
سید منور بخاری صاحب، جفاکشی، ہر دم عمل پیہم، سادگی، بلند اخلاقی کی اعلی مثال اور زندہ نظیر ہیں
Post a Comment