Wednesday, 11 December 2013

شہید عبد القادر ملّا، حسینہ حکومت اور انسانی حقوق کی پامالی

| |
ظلم،ناانصافی،جبراور فسطائیت کے دن ہمیشہ تھوڑے ہوتے ہیں ۔ان ہتھیاروں کو آزمانے والے جانتے بوجھتے اس حقیقت کو ہمیشہ نظر انداز کر دیتے ہیں،اور وقت کا دھارا ایک دن انہیں بتلاتا ہے کہ ان کے یہ ہتھیار نہایت کند ثابت ہوئے ہیں۔ آج بنگلہ دیش میں حسینہ حکومت اپوزیشن کے خلاف یہی حربہ آزما رہی ہے۔
وہ خبر آ گئی ہے جس کا انتظار تھا ،وہ خبر کیا تھی کہ آج رات 12 بجے عبد القادر ملاً کو پھانسی کی سزا پر عمل درآمد ہو گا۔ 65سالہ بزرگ ملا عبد القادر اس سارے معاملے میں جو مردانہ وار اورحوصلے سے کھڑے نظر آتے ہیں ۔عبدالقادر ملّا جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل ہیں، جنہیں بنگلہ دیش کی کنگرو کورٹ نے سزائے موت سنا دی ہے ۔اس سے قبل ٹرائل کورٹ نے انہیں عمرقید کی سزا سنائی تھی ،جسے بڑھا کر سپریم کورٹ نے سزائے موت میں تبدیل کر دیا۔ سزائے موت کے عمل درآمد کے تمام انتظامات مکمل تھے ۔وکیل اور گھر والوں سے ان کی ضابطے کی ملاقاتیں کرا دی گئی تھیں ۔لیکن پھر چیمبر کورٹ نے پھانسی کی سزا پر عمل درآمد روکنے اور مقدمے کی صبح 10 بجے فل بینچ سپریم کورٹ میں سماعت کا وقت دے دیا۔آج کا دن سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت ہوتی رہی جب کہ دوسری طرف ساراملک میدان جنگ بنا رہا ۔اور خانہ جنگی کی کیفیت نظر آئی ،اس موقع پر18جماعتی اپوزیشن متحد و مضبوط ہے ۔اپوزیشن کا اصرار ہے کہ حکومت انتخابات کا اعلان کرے اور اس سے پہلے عبوری حکومت کا جماعت اسلامی اس اپوزیشن کا مرکزی اور مضبوط حصہ ہے ۔
عبدالقادر ملا کو پھانسی کی سزا کیوں دی گئی،ان کے جرائم کیا ہیں ، ان کے جرائم یہ ہیں کہ 1971میں مشرقی پاکستان میں ہندوستانی فوج کے زیر نگرانی مسلح دہشت گردی کی کارروائیوں بالخصوص بغاوت، ملک توڑنے ،بھارتی افواج کا ساتھ دینے، پُرامن شہریوں کے قتل اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے والی مکتی باہنی کے بالمقابل جد وجہد میں حصہ لیا ، پاکستانی فوج کا ساتھ دیااور عوام تک اس جذبے کو منتقل کیا ۔وہ اس زمانے میں طالب علم تھے۔ ان کا یہی جرم آج 42سال بعد جنگی جرم بن کر سامنے آ گیا ہے ۔جنگی جرائم ٹریبونل نے جونہی عبدالقادر ملا کو سزا سنائی حسینہ شیخ سپریم کورٹ پہنچیں اور کہا کہ’’ عبدالقادر ملا کو عمر قید کی بجائے سزائے موت دی جائے۔‘‘اس موقع پر سیکولر لابی جس نے ہمیشہ بھارتی اور مغربی سرپرستی میں سزائے موت کی مخالفت کی ہے ،وہ یہ نعرے لگاتی نظر آئی کہ ’’عمرقید نہیں سزائے موت چاہیے ‘‘جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 18ستمبر 2013عدالت عظمیٰ نے عبدالقادر ملا کو سزائے موت سنا دی اور اپیل کا حق بھی سلب کر لیا۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
عبدالقادر ملا 14؍اگست 1948کو ضلع فرید پور(بنگلہ دیش) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے 1968میں راجندر کالج فرید پور سے گریجوایشن کی اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایم اے میں داخل ہوئے وہ 1971کے بعد بنگلہ دیش سے باہر نہیں گئے ان کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے ۔بطور صحافی ان کی خدمات قابل قدر رہی ہیں۔ روزنامہ ’’سنگرام‘‘ ڈھاکہ کے ایگزکٹو ایڈیٹر اور بنگلہ دیش نیشنل پریس کلب کے ممبر منتخب ہوئے ۔
5فروری 2013ء کو عدالت نے عبدالقادر ملاکے مقدمے کا فیصلہ سنایا تو بی بی سی کے نمائندے کے مطابق عبدالقادر ملا نے بلند آواز میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کیااور ججوں کو مخاطب کرکے کہا ’’ایسا غیر منصفانہ فیصلہ کرنے پر تمہیں کوئی اچھے نام سے یاد نہیں کریگا‘‘۔ان کے وکیل بیرسٹر عبدالرزاق نے کہا ’’یہ عدالت کے روپ میں ایک شکاری ہے‘‘ ۔The independentکے مطابق عدالتی فیصلے کے بعد عبدالقادر ملا مطمئن اور خوش نظر آ رہے تھے۔ عدالت سے نکلتے وقت انہوں نے فتح کا
( victory)کا نشان بنایا۔20ستمبر کو ان کے صاحبزادے نے اپنے عظیم والد سے ملاقات کی اور ملاقات کے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے والد نے کہا کہ بیٹا مَیں کتنا خوش قسمت ہوں کہ جوانی میں جس موت کی دعا مانگا کرتا تھا اللہ کے فضل سے اب وہ موت میرے سامنے ہے۔اس پر غم نہ کرو بلکہ شہادت کی قبولیت کے لئے رب سے دعا مانگو‘‘
عبدالقادر ملا کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد ہوتا ہے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر پھانسی سے گزرنے کی یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہوگی۔ اللہ کے راستے پر چلنے والے پھانسی کے پھندوں کو چوم کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ رب سے ملاقات کی آرزو پوری ہو رہی ہے، یہ حضورؐ کی جد و جہد کے امین اور ان کے ایک سچے پیروکاراور امتی ہیں۔سید مودودی ؒ کے جماعت سے وابستہ عبدالقادر ملا شہادت کے متمنی ہیں ۔ 
یہ اوراس طرح کے فیصلوں سے حسینہ حکومت اور اسکے سرپرستوں کے لئے حالات کو قابو میں رکھنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ایک ایسی حکومت جس کی مدت پوری ہو چکی اور انتخابات جس کے سر پر منڈلا رہے ہیں اس کے لئے عبوری حکومت قائم کرنے اور انتخابات کا اعلان کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں مگر وہ ان اوچھے ہتھکنڈوں سے اپنا ہی راستہ کھوٹا کررہی ہے دوسروں کا نہیں۔بنگلہ دیش کے حالات سخت کشیدگی ،خانہ جنگی اور خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر حسینہ حکومت کو شاید اس کا ادراک نہیں وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر جو کرنا چاہتی ہیں وہ کرنا بھی ان کے لئے اتنا آسان نہیں ہوگا۔
اسلام اور اسلامی تحریکیں دنیا بھر میں پیش قدمی کے راستے پر ہیں۔ ان تحریکوں کی راہ کھوٹی نہیں کی جا سکتی۔اسلام اور اسلامی تحریکوں کی جد و جہد سے خائف گروہ نت نئے حیلوں اور بہانوں سے ان کا راستہ روکنے کیلئے کوشاں ہیں لیکن یہ راستے بھی کبھی رک سکے ہیں جو اب رکیں گے۔حسینہ شیخ ہوں یا جنرل السیسی یہ سب استعمار کے مہرے ہیں۔ یہ تمام میرے خائب و خاسر اور نا کام و نامراد ہونگے اور اخلاص کے ساتھ اس راستے پر چلنے والے ہی کامیاب اور با مراد ہوں گے ۔ 
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے 
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں 

8 comments:

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات ن

دست وفا سر ہیں یہ ارباب وفا کے
کٹ جائیں تو کٹ جائیں جھکائے نہیں جا تے

Very Weldon Ghazi Sahib. I am surprised to the see the No-response policy of the so call Pakistan Muslim Leagues.
By principle, the own the two nation theory but infect they did nothing save the lives of the Jamat-e-Islami BD Leadership. Suppose Abdul Qadir Mullah was fighting for Pakistan even than what was wrong in that. After all he was fighting for his country. This is pitiable that opportunists have become the leaders of the nation.

This comment has been removed by the author.


عبدل قادر ملا شہید کے آخری الفاظ...

میں عبدل قادر مولہ

---قیدی نمبر---٣٧٩
سکنہ --کا ل کوٹھری
سنٹرل جیل --ڈھاکہ
خط
مجھے نۓ کپڑے فراہم کردیے گئے ہیں --- نہانے کا پانی بالٹی میں موجود ہے ... سپاہی کا آرڈر ہے کہ جلد از جلد غسل کر لوں ----
کال کو ٹھری میں بہت زیا دہ آنا جانا لگا ہوا ہے ---- ہر سپاہی جھانک جھانک کر جارہا ہے ----- کچھ کے چہرے افسردہ اور کچھ چہروں پر خوشی نمایاں ہے --------- ان کا بار بار آنا جانا میری تلاوت میں خلل ڈ ا ل رہا ہے ----میرے سامنے سید مودودی کی تفہیم ال قرآن موجود ہے ، ترجمہ میرے سامنے ہے " غم نہ کرو ، افسردہ نہ ہو - تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو " سبحان الله ------- کتنا اطمنان ہے ان کلمات میں ......! میری پوری زندگی کا حاصل مجھے ان آ یات میں مل گیا ہے ....... زندگی اور موت کے درمیان کتنی سانسیں ہیں یہ رب کے علاوہ کوئی نہیں جانتا .....مجھے اگر فکر ہے تو اپنی تحریک اور کارکنان کی ہے ----- الله سے دعا ہے کہ وہ ان سب پر اپنا فضل اور کرم قائم رکھے. آمین
الله پاکستان کے مسلمانوں اور میرے بنگلہ دیش کے مسلما نوں پر آسانی فرماے --- دشمنان اسلام کی سازشوں کو ناکام بنا دے (امین) عشا کی نما ز کی تیاری کرنی ہے ، پھر شاید وقت ملے نہ ملے؟ میری آپ سے گزارش ہے کہ ہم سب نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس پر ڈٹے رہیں .... میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ راستہ سیدھا جنت کی طرف جاتا ہے ،
آپ کا مسلمان بھائی ... عبدل قادر ملا

ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دکھا گیا
جو شام غم تو کاٹ لی، سحرہوئی چلا گیا

One must not ignore the "Sadaat" while talking about the "Shahaadut"

پکار دو کے اٹھی ہے شہید کی میت
زمانہ پیچھے چلے اور سر جھکا کے چلے
شہید ملہ عبدلقادر جنتی انسان تھے۔
جنہوں نے پھانسی کے پھندے کو چوم کر گلے لگایا۔
یہ مرتبہ کسی کسی کو نسیب ہوتا ہے۔
اللہ تعالہ ان کی شہادت کو قبول فرمائے۔
اور بنگلہ بند ھو شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ کو عبرت کا نشان بنا دے۔

Post a Comment