Wednesday 23 July 2014

صدقۃالفطر( فضائل و احکام )

| |
رمضان المبارک انسان کو اپنے رب سے وابستہ کرنے ، اس وابستگی کو مضبوط کرنے ، نیکی کے جذبے پروان چڑھانے اور گناہوں سے پا ک کرنے کا مہینہ ہے۔ روزہ انسانی نفس کا تزکیہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ پورے مہینے کا یہ عمل ( روزے ) انسان کو روحانی و جسمانی طور پر پاکیزگی کا خوگر بناتا ہے، انسان ہونے کے ناطے روزوں میں رہ جانے والی کمی کوتاہی کے ازالے کے لیے فطرانہ کی ادائیگی کے احکاما ت دیے گئے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی ؐ نے روزہ دارکو لغو اوربے ہودہ باتوں سے پا ک کرنے اور مساکین کو کھا نا کھلانے کے لیے صدقہ فطر مقرر فرمایاہے۔ لہٰذا جو نماز عید سے قبل ادا کرے گا اس کا صدقہ مقبول بارگاہ رب العزت ہوگا اور جو نماز عید کے بعد ادا کرے تو عام صدقوں میں ایک صدقہ ہے ۔یعنی اسے صدقہ فطر نہیں کہا جائے گا ( ابن ماجہ )

حضرت جریرؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺنے فرمایا ’’ رمضان کا روزہ آسمان و زمین کے مابین لٹکا رہتا ہے ۔ فطرانے سے ہی اوپر بلند کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کثیر ابن عبد اللہ المزنی اپنے باپ اور دادا کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ سے قد افلح من تزکی oوذکر اسم ربہ فصلیoکے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ آیت فطرانے کے بارے میں نازل ہوئی۔

صدقہ فطر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس کا اندازہ اس حدیث سے کیا جاسکتا ہے، جس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’ عید الفطر سے قبل پیدا ہونے والے ایک دن کے بچے کا فطرانہ ادا کر نا لازم ہے۔ ‘‘ صدقہ فطر ادا کرنا ہر غلام اور آزاد ، مرد و عورت اور چھوٹے بڑے ہر مسلمان پر فرض ہے۔ صدقہ فطر کے مستحقین بھی وہیں ہیں جو زکوٰۃ کے مستحقین ہیں۔ 
حضر ابن عمرؓ کہتے ہیں رسول ؐ نے فرمایا کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع فطرانہ مسلمانوں میں سے غلام اور آزاد، چھوٹے اور بڑے پر واجب ہے۔جو لوگوں کو عید گاہ کی طرف نکلنے سے پہلے پہلے اسے ادا کردے اسے زیادہ ثواب ملے گا۔ ( متفق علیہ)

امام ابو حنیفہؓ کے نزدیک فطرانہ واجب ہونے کا وقت یکم شوال کو طلوع فجر سے ہوتا ہے۔ امام مالک اور اما م شافعی کے مطابق فجر سے غروب آفتا ب تک ۔ 
فطرانہ زیر کفالت افراد کی طرف سے ادا کیا جائے گا۔ فطرانہ کی ادائیگی اپنی طرف سے، اپنے زیر کفالت افراد، بیوی بچے اور نوکر وغیرہ کی طرف سے ہوگی،امام ابو حنیفہ کے نزدیک اپنی بیوی کی طرف سے فطرانہ ادائیگی کی ذمہ داری نہیں۔ 
فطرانہ ادا کرنے کا افضل ترین وقت عید کے دن نماز فجر کے بعد اورنماز عید کی ادائیگی سے قبل ہے۔ حضر ت ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول ؐ نے فطرانہ نماز عید سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا جبکہ صحابہ کرامؓ فطرانہ عید سے ایک یا دو دن قبل ادا کرتے تھے۔ ( بخاری)

فقہا کا اتفاق ہے کہ فطرانہ پانچ چیزوں میں سے نکالنا جائز ہے۔ گندم، جو، کھجور، کش مش اور پنیر جبکہ پنیر کے لیے خوراک ہونا ضروری ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا کہ پنیر بذات خود بطور صدقہ فطرانہ دینا جائز نہیں ، البتہ اس کی قیمت دیناجائز ہے۔ جبکہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس میں عشر واجب ہے وہ فطرانہ کی ادائیگی کے لیے بھی مناسب ہے۔ جیسے چاول، مکئی،باجرہ وغیرہ۔ ان چیزوں میں سے جس کو بھی بطور فطرانہ ادا کرنا ہو ،اس کو نبی مہربان ﷺکے صاع کے مطابق ادائیگی لازمی ہے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ہم فطرانہ نکالتے تھے جب ہم میں اللہ کے رسول موجود تھے۔ گندم کا ایک صاع، یا جو کا ایک صاع یا کشمش کا ایک صاع یا پنیر کا ایک صاع، ہم ایسا ہی کرتے رہے حتیٰ کے مدینہ منورہ میں ہمارے پاس امیر معاویہؓ تشریف لائے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ میرے رائے ہے کہ شام کی گندم کے دومد کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں۔ لوگوں نے حضرت امیر معاویہؓ کی رائے لے لی۔ ابو سعیدؓ نے فرمایا پس میں تو اسے مسلسل ادا کرتا ہوں جیسا کہ میں ادا کیا کرتا تھا۔ 

صدقہ فطر میں پونے د و کلو گندم ( احتیاط کے پیش نظر 2کلو) یا گندم کا آٹا یا ساڑھے تین کلو جو ( احتیاط کے نقطہ نظر سے 4کلو) جو کا آٹا یا ستو یا چار کلو کھجور یا کشمش یا ان کی قیمت مارکیٹ کے نرخ کے مطابق ادا کرنا واجب ہے۔(صاع ایک پیمانہ ہے جس کا وزن تقریباًسوا تین کلو ہے )

حقیقی رشتہ داروں ، دادا، دادی، ماں ، باپ ، نا نا نانی، بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسہ نواسی میں سے کسی کو بھی صدقہ فطر دینا جائز نہیں، اسی طرح شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو صدقہ فطر نہیں دے سکتے۔ جبکہ دیگر محتاج، مسکین اور غریب عزیز و اقارب میں سے سوتیلے دادادادی، سوتیلے ماں باپ، حقیقی چچا چچی، پھوپھا پھوپھی، ماموں ممانی، خالو خالہ، حقیقی بھائی بہن، بھتیجا، بھانجا، بھانجی، ساس سسر، سالہ سالی، بہنوئی کو زکوٰۃ و عشر کی طرح صدقۃ الفطر دینا جائز ہے۔ حضورؐ کے ارشاد گرامی کے مطابق تمام صدقات محمد ؐ اور آل محمد ؐ کے لیے حلال نہیں ہیں۔

1 comments:

mashaAllah, Zabardast informative

Post a Comment