Tuesday 30 September 2014

مغرب کا خاندانی نظام اور اسلام

| |
اسلام کامل اور عالمگیر نظام زندگی ہے اور اس نظام زندگی کو بڑی تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیاہے۔قرآن مجید میں ہر شعبہ زندگی سے متعلق رہنمائی عطا کی گئی ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، ازدواجی زندگی ہو یا خانگی و قبائلی، معاشی زندگی ہو یا معاشرتی، قرآن مجید نے ہر شعبہ زندگی میں ہدایت و رہنمائی کا حق ادا کیا ہے۔

 ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
’’ وَہٰذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِیْمًاط قَدْ فَصَّلْنَاالْاٰیَاتِ لِقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَo‘‘ (الانعام ۶: ۲۶) ’’ حالانکہ یہ راستہ تمہارے رب کا سیدھا راستہ ہے اور اس کے نشانات ان لوگوں کے لئے واضح کر دیے گئے ہیں جو نصیحت قبول کرتے ہیں ۔‘‘

موجودہ دور مغرب کے علمی اورر فکری غلبے کا دور ہے، اسی غلبے کا نتیجہ ہے کہ آج مغرب کے افکار و نظریات ہر چہار طرف راج کرتے نظر آتے ہیں۔مغرب کے اس غلبے کے پیچھے دراصل اہل مغرب کی محنت اور جد و جہد کے ساتھ ساتھ ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا طویل سلسلہ ہے، مغرب میں بسنے والا ہر انسان ایک ذہنی کشمکش ، تناؤ اور روحانی طور پر مضطرب اور پریشان نظر آتا ہے۔لیکن اس پریشان فکری اور پریشان خیالی کے باوجود وہ اپنے طور طریقے ، رہن سہن بدلنے کو تیار نظر نہیں آتا۔
مغرب کا معاشرہ ہو یا خاندانی نظام شدید مشکلات کا شکار نظر آتا ہے اور اس کی وجہ اہل مغرب کی دین بیزاری اور دین سے دوری کے سوا کچھ نہیں ۔آسمان پر کمندیں ڈال لینے اور سمندر کی گہرائیوں کا کھوج لگا لینے اور ناپنے کے باوجود مغرب انسان کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکا۔وہ مداوا کر بھی نہیں سکتا جب تک وہ ابدی تعلیمات جو قرآن وسنت کی صورت میں انسانی رہنمائی کے لئے اللہ رب العزت نے بھیجی ہے ، پر عمل نہیں ہوگا۔انسان کی روحانی پیاس بجھ پائے گی اور نہ جسمانی مصائب کا علاج ہوگا۔مغرب کا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کے جس مقام پر ہے ۔ اس سے مغرب کی دین بیزاری کا بڑا ہاتھ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ 
’’یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآءً وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا۔o‘‘ (سورۃ النساء:۴:۱) 
ترجمہ’’ لوگو اپنے رب سے ڈرو، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلادیے اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات بگاڑنے سے پرہیز کرو ، یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔‘‘

سورہ نساء کی یہ آیت مسلم مرد و خواتین کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ مرد و عورت دونوں کی تخلیق ایک ہی طرح سے ہوئی ہے ۔یہ دونوں ایک دوسرے سے وابستہ اورایک دوسرے کا حصہ ہیں ۔دونوں کی جسمانی ساخت ایک دوسرے سے مختلف مگر دونوں سفر زندگی میں ایک دوسرے کے ممد و معاون ہیں ۔

کوئی مرد عورت کے بغیر زندگی کا سفر احسن طریق سے طے نہیں کر سکتااور کوئی خاتون مرد کے بغیر زندگی کا سفر طے نہیں کر سکتی۔مسلمان عورت اور مرد کی رفاقت اسی وقت جائز ہوتی ہے جب اللہ کا نام لیا جاتا ، خدا کا نام غیروں کو اپنا اور اپنوں کو غیر بنا دیتا ہے۔اسی کے نتیجے میں مرد و عورت ایک دوسرے کے ہم سفر بن جاتے ہیں اور ان کا یہ تعلق محبت اور اعتماد کا تعلق ہوتا ہے۔ جو اعتماد ،محبت اور بے تکلفی اس رشتے میں پائی جاتی ہے وہ کسی دوسرے رشتے میں نہیں۔ اللہ کا نام نئے تعلق کو وجود بخشتا ہے ۔جو کل تک غیر محرم تھے اور بے تکلف نہیں ہو سکتے تھے وہ اس مقدس رشتے اور بندھن میں بند ہو گئے ہیں۔قرآن مجید زوجین کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے۔

ازدواجی زندگی انسان کو تہذیب و تمدن سے آشنا کرنے اور مہذب بنانے کا ذریعہ ہے۔ اسلام ازدواجی زندگی کو عبادت کا درجہ دیتا ہے نبئ مہربان ﷺ کی سیرت میں گھر والوں کے لئے عمدہ نمونہ ہے۔ آپﷺ فرماتے ہیں ’’تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے سب سے بہتر ہے۔
حضورؐ نہ صرف ازواج مطہرات کے جذبات و احساسات کا خیال رکھتے تھے بلکہ ان کی جائز تفریحات میں بھی شرکت فرماتے تھے ۔اس ضمن میں حضورﷺ کا رویہ اتنا عمدہ اور اعلیٰ ہے کہ یہ موجودہ دور کے خواتین کے حقوق کے کسی بڑے سے بڑے علمبردار کے ہاں بھی کم ہی ملے گا۔
یہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے اسلام کا خاندانی نظام مضبوطی اور تقویت پاتا ہے۔ مغرب کا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ مغر ب کے زوال کا بڑا سبب ہے ۔خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ سے مغربی معاشرے میں انتشار اور بگاڑ اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔بیوی اور شوہرمیں باہمی محبت و اعتماد اور احترام باقی نہیں رہا۔ مغرب اپنے خاندانی نظام کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا چاہتا ہے مگر کیسے بچائے؟ اس کے لئے اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔

مغرب اور اہل مغرب کے بارے علامہ اقبالؒ نے درست فرمایا 
       ؂ ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا 
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا 
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

آج مغربی معاشرہ اور مغربی خاندان جس اذیت ناک کیفیت سے دوچار ہے اس میں اس کے خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کا بڑا ہاتھ ہے جنس کی وجہ سے مغرب پریشان اور اذیت سے دوچار ہے۔مغرب کا خاندان اور گھر کا نظام آرام و راحت اور سکون کا نہیں بے چینی اور پریشانی کا ذریعہ بن چکا ہے مغرب کا انسان ڈانسنگ کلبوں جؤا خانوں میں سکون کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے لیکن نہ ان کے معاشرے میں سکون ملتا ہے اور نہ گھر میں۔ضرورت ہے کہ مغرب کا انسان اسلام کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کر لے جس میں دنیاوی و اخروی اطمینان اور سکون ہی سکون ہے اور یہ موجودہ دور کے مسلمان کا کام بھی ہے کہ وہ مغرب کے بھٹکے ہوئے اور پیاسے انسان کی اسلام کی طرف راہنمائی کرے۔

1 comments:

مغرب اپنے خاندانی نظام کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا چاہتا ہے مگر کیسے بچائے؟ اس کے لئے اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔

Post a Comment